ڈونلڈ ٹرمپ کے نوبیل امن انعام جیتنے کے کوئی امکان نہیں، ماہرین
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نوبیل امن انعام جیتنے کی خواہش ایک بار پھر ادھوری رہتی نظر آ رہی ہے، کیونکہ عالمی امور کے ماہرین اور نوبیل پرائز سے وابستہ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے حالیہ اور ماضی کے اقدامات انہیں امن کے فروغ سے دور اور انعام کے معیار سے نیچے لے جاتے ہیں۔
نوبیل انعام کی ماہر تاریخ دان آسلی سوین نے واضح طور پر کہا ”ٹرمپ کا نوبیل امن انعام جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔“
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں نے ان کے کردار کو مزید متنازع بنایا ہے۔
ماہرین کے مطابق نوبیل انعام دینے والی پانچ رکنی نارویجن کمیٹی کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔
ایک رکن نے رائٹرز کو بتایا کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے لابنگ یا عوامی مہم ان کے خلاف جا سکتی ہے۔
کمیٹی ایسے افراد یا اداروں کو ترجیح دیتی ہے جنہوں نے واقعتاً بین الاقوامی بھائی چارے، انسانیت اور امن کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے ہوں۔
نینا گریگر، ڈائریکٹر، امن ریسرچ انسٹیٹیوٹ اوسلو نے ٹرمپ کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”انہوں نے امریکا کو عالمی ادارہ صحت اور ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے سے نکالا، اپنے پرانے اتحادیوں کے ساتھ تجارتی جنگیں شروع کیں یہ سب کسی پُرامن رہنما کی صفات نہیں۔“
ممکنہ فاتحین کون ہو سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق اس سال انعام ان بین الاقوامی انسانی تنظیموں کو دیا جا سکتا ہے جو مشکل حالات میں خدمت انجام دے رہی ہیں، جیسے اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین،اقوام متحدہ کا بچوں کا ادارہ، ریڈ کراس اور ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنظیمیں ان ماحول میں کام کر رہی ہیں جنہیں ٹرمپ کی حکومت کی امداد میں کٹوتی نے مزید مشکل بنایا۔
ماضی کے متنازع فاتحین
اگرچہ ماضی میں بھی کچھ متنازع شخصیات جیسے باراک اوباما (صدر بننے کے صرف آٹھ ماہ بعد) اور ہنری کسنجر (ویتنام جنگ کے دوران) کو انعام دیا جا چکا ہے، لیکن ان کے ساتھ اصلاحی رویہ اور بین الاقوامی امن کی کوششیں منسلک رہی ہیں۔
نوبیل کمیٹی کے سابق رکن ہینرک سائے سے نے کہا ”بعض افراد نے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کر کے اصلاحی قدم اٹھائے، جس پر انہیں انعام دیا گیا جیسا کہ جنوبی افریقی رہنما ایف ڈبلیو ڈی کلرک جنہیں نیلسن منڈیلا کے ساتھ مشترکہ انعام دیا گیا تھا۔“
نوبیل انعام کی ماہر نینا گریگر کا کہنا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر یوکرین میں جنگ ختم کرنے یا اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ رکوانے کے لیے مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں، تو انہیں نوبیل امن انعام کے ممکنہ امیدوار کے طور پر زیرِ غور لایا جا سکتا ہے۔
نوبیل انعام کے لیے بھرپور لابنگ
اگرچہ ماضی میں کئی افراد نوبیل امن انعام کے لیے لابنگ کرتے رہے ہیں، لیکن ماہرین کے مطابق ٹرمپ نے جتنی شدت سے یہ مہم چلائی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے بین الاقوامی فورمز پر بھی خود کو نوبیل انعام کا اہل قرار دیا۔
تاہم، نارویجن نوبیل کمیٹی کے نائب سربراہ کے مطابق ایسی لابنگ اکثر الٹا اثر ڈالتی ہے اور انعام کے امکانات کم کر دیتی ہے، کیونکہ کمیٹی آزادانہ اور بیرونی دباؤ سے پاک فیصلے کو ترجیح دیتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان حکومت نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد بھی کیا ہے۔
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔