Aaj News

انجینیئر مرزا گستاخ اور سزا کا مستحق؛ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے پر سوشل میڈیا صارفین کا ملا جلا ردعمل

انجینیئر کو سنے بغیر یوں مجرم قرار دینا نامناسب حرکت ہے، صحافی احمد وڑائچ
شائع 25 ستمبر 2025 02:21pm

اسلامی نظریاتی کونسل معروف مذہبی اسکالر انجینیئر محمد علی مرزا کے بیان کو ’فساد فی الارض‘ قرار دیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہے۔

26 اگست 2025 کو پنجاب کے شہر جہلم کے تھانہ سٹی میں انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف شہری کی درخواست پر توہینِ مذہب کا مقدمہ دفعہ 295 سی کے تحت درج کیا گیا تھا۔ اس سے ایک روز قبل انجینیئر محمد علی کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور ڈپٹی کمشنر کے حکم پر انہیں تھری ایم پی او کے تحت جیل میں نظربند کردیا گیا تھا۔

ابھی اس گرفتاری پر تنقید چل ہی رہی تھی کہ بدھ کو اسلامی نظریاتی کونسل نے انجینیئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب اور ایف آئی آر میں توہین قرآن کی دفعات شامل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے سخت سزا کا مستحق قرار دیا۔

AAJ News Whatsapp

یہ خبر سوشل میڈیا پر آئی تو حامی اور مخالفین دونوں کی جانب سے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

صحافی سبی کاظمی نے کونسل کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’انجینیئر علی مرزا سے جتنا مرضی اختلاف کریں لیکن وہ گستاخ نہیں ہوسکتا، وہ تو عاشق رسول ﷺ اور خود کو خادم آل رسول ﷺ تک کہتا ہے۔ یہ اسلامی نظریاتی کونسل سے جو فتویٰ لینا چاہیں وہ مل جاتا ہے‘۔

انجینیئر ویوز کے نام سے ایک ایکس اکاؤنٹ نے لکھا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل پہلے یہ وضاحت کرے کہ کیا ڈنڈے کے زور پر ایک ہی دن (ٹیکس لینا ناجائز سے ٹیکس لینا جائز تک) میں اپنا ہی فتویٰ واپس لینا جائز ہے؟ میرے نزدیک انجینیئر محمد علی مرزا اسلامی نظریاتی کونسل کے مقابلے میں اسلام کی زیادہ خدمت کر رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل نے اسی بیٹھک کے دوران بینکوں سے رقم نکالنے اور منتقلی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو غیر شرعی قرار دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

صحافی احمد وڑائچ نے لکھا کہ ’مرزا صاحب کے طرز گفتگو سے مجھے اختلاف رہا ہے، جس کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی کیا، لیکن انجینیئر کو سنے بغیر یوں مجرم قرار دینا نامناسب حرکت ہے۔‘

پیشے سے وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ ’یہ گستاخ گستاخ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ورنہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی، پھر کسی بھی فرقے کا مولوی جیل سے باہر نہ ہوگا۔‘

ایک اور سوشل میڈیا صارف اسجد بخاری نے لکھا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل نے پہلے بھی کبھی کوئی سنجیدہ یا مثبت کردار ادا نہیں کیا، مگر انجینیر محمد علی مرزا کو ملزم قرار دے کر اس نے نہ صرف انتہاپسندی کو کھلم کھلا ہوا دی ہے بلکہ ایک ریاستی ادارے کے طور پر اپنی مکمل ناکامی اور مجرمانہ ذہنیت کو بھی بے نقاب کردیا ہے‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے بیان میں کیا کہا؟

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’انجینیئر محمد علی مرزا کے کئی بیانات میں ایسے جملے موجود ہیں جو محض نقل کفر پر مشتمل ہیں مگر کسی شرعی مقصد کے بغیر کہے گئے ہیں۔ اس بنا پر ان کا یہ عمل سخت تعزیری سزا کا مستحق ہے’۔

انجینئر مرزا نے اپنے ایک بیان میں مسیحی برادری کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کی کتابوں میں نبی کریم ﷺ کو دجال کہا گیا ہے (نعوذ باللہ)۔ جس کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’شرعی اُصول یہ ہے کفر کے الفاظ صرف اس وقت نقل کیے جا سکتے ہیں جب اُن کا مقصد جائز دینی ضرورت ہو، مثلاً شہادت، باطل کی تردید، تعلیم یا تنبیہ وغیرہ۔۔۔ بلا ضرورت ایسے کلمات دہرانا ناجائز اور بعض صورتوں میں سخت گناہ ہے۔‘

اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ محمد علی مرزا کے بیانات پر ’پاکستان کی مسیحی برادری کو بھی ایک مراسلہ بھیجا جائے گا کہ وہ تحریری طور پر واضح کریں کہ محمد علی مرزا نے پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق جو باتیں کی ہیں، کیا اُن کی مذہبی کتابوں میں اجتماعی طور پر اُن کی یہ رائے ہے یا نہیں؟‘

انجینیئر محمد علی مرزا کون ہیں؟

انجینیئر محمد علی مرزا بطور مبلغ سوشل میڈیا پر کافی شہرت رکھتے ہیں اور اپنے غیر روایتی نظریات کی بنا پر زیرِ بحث رہتے ہیں۔

انجینیئر مرزا کا تعلق جہلم سے ہے اور وہ اسی شہر میں واقع اپنے مدرسے میں مختلف مذہبی موضوعات پر درس و تدریس کا سلسلہ چلاتے ہیں۔ اپنے مدرسے کو وہ اکیڈمی اور حامیوں کو اسٹوڈنٹس کہتے ہیں۔

اُن کے یوٹیوب چینل پر موجود 2471 سے زائد ویڈیوز لاکھوں مرتبہ دیکھی جا چکی ہیں اور اُن کے سبسکرائبرز کی تعداد 31 لاکھ سے زیادہ ہے۔

انجینیئر محمد علی مرزا خود کو کسی مذہبی یا سیاسی گروہ سے نہیں جوڑتے۔ وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ اُن کا تعلق کسی مسلک سے نہیں اور اُن کا نعرہ ہے کہ ’میں ہوں مسلم علمی کتابی۔‘

مئی 2020 میں انجینیئر محمد علی مرزا کو مبینہ طور پر ’مذہبی شخصیات کی گستاخی‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم بعدازاں عدالت نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

غیر روایتی مذہبی خیالات کے باعث اُن پر ماضی میں قاتلانہ حملے بھی ہوئے، تاہم، وہ محفوظ رہے ہیں۔

جہلم پولیس کے مطابق مارچ 2021 میں ان پر چاقو سے حملہ کیا گیا تھا اور اُن کے بازو پر زخم آیا تھا، تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔ 2017 میں بھی ان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا تھا، اس میں بھی وہ محفوظ رہے تھے۔

انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف حالیہ مقدمہ کیا ہے؟

جہلم پولیس کے ترجمان عمر سعید کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا کو ایک درخواست کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، جس میں انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ اُن کی جانب سے ادا کیے گئے کچھ کلمات نے مبینہ طور پر ’مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح‘ کیے ہیں اور درخواست گزار نے اِسی بنیاد پر محمد علی مرزا کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی تھی۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جہلم پولیس چوہدری شہباز ہنجرا کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا کو رات گئے حراست میں لیا تھا اور اُنہیں الزامات کے بارے میں اور حالات کی سنگینی سے متعلق بھی بتا دیا گیا تھا۔

محمد علی مرزا کی حراست کو 3 ایم پی او کے تحت نظربندی قرار دیا گیا تھا۔

ڈپٹی کمشنر جہلم کی جانب سے جاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او جہلم کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ انجینیئر محمد علی مرزا عوامی تحفظ اور امن و امان کی صورتحال کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔

اس حکمنامے میں تھری ایم پی او کے تحت محمد علی مرزا کی حراست کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق انجینیئر محمد علی پر الزام ہے کہ انہوں نے انتہائی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز تقاریر کی ہیں جو گمراہ کن، اشتعال انگیز اور نقض امن کا باعث بن سکتی ہیں۔

حکمنامے کے مطابق، انجینیئر مرزا کے بیانات فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے اور مذہبی جذبات کا استحصال کر کے نفرت کو ہوا دے سکتے ہیں۔

تھری ایم ہی او کے تحت حراست میں لیے جانے کے دوسرے دن ہی ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی تھی۔

Engineer Muhammad Ali Mirza

Islamic Idealogy Council (IIC)