Aaj News

لاہور: گھر والوں کو قتل کرنے والے ’پب جی‘ کے شوقین بچے کو مجموعی طور پر 100 سال قید کی سزا

'آن لائن گیم میں دیے گئے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد نوعمر لڑکے کا مزاج غضب ناک ہوگیا تھا'
شائع 24 ستمبر 2025 03:50pm

لاہور کی سیشن کورٹ نے کاہنہ میں والدہ، بھائی اور دو بہنوں کو قتل کرنے کے دل دہلا دینے والے مقدمے میں پب جی کے شوقین مجرم علی زین مجموعی طور پر 100 سال قید اور 40 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔

ایڈیشنل سیشن جج ریاض احمد نے جرم ثابت ہونے پر مجرم کو چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مجرم کی کم عمر کی وجہ سے اسے چار بار عمر قید کی سزا دی جا رہی ہے۔

قتل کا یہ افسوس ناک واقعہ جنوری 2022 میں پیش آیا تھا، جب 14 سالہ علی زین نے مشہور آن لائن گیم ’’پب جی‘‘ سے متاثر ہو کر اپنے ہی گھر کو خون میں نہلا دیا تھا۔

مجرم نے اپنی والدہ، جو ایک لیڈی ہیلتھ ورکر تھیں، انہیں اپنے کمرے میں سوئے پایا اور گیم کے غصے میں ان پر اپنی والدہ کی ہی پستول سے گولی چلادی۔ اس کے بعد اس نے اپنی بہنوں 15 سالہ ماہ نور فاطمہ اور 10 سالہ جنت کو بھی گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

مجرم نے شور کی آواز سن کر کمرے میں آنے والے 20 سالہ بڑے بھائی تیمور سلطان کو بھی نہ بخشا اور یوں ایک ہی گھر کے چار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا تھا کہ زین علی ”پب جی“ کھیلنے کا شوقین تھا اور اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں آن لائن گیم کھیلنے میں لگاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آن لائن گیم میں دیے گئے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد نوعمر لڑکے کا مزاج غضب ناک ہوگیا تھا۔ پولیس افسر نے بتایا کہ واقعے کے دن لڑکا گھنٹوں ”پب جی“ کھیلتے ہوئے کسی ہدف میں ناکامی کے بعد اپنا ہوش کھو بیٹھا، اور اپنی والدہ کی پستول اٹھا کر کمرے میں گیا اور گھر والوں کو قتل کردیا۔

قتل کرنے کے بعد علی زین نے پستول قریبی نالے میں پھینک دیا اور اوپر اپنے کمرے میں جا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ جیسے وہ واقعے کے وقت سو رہا تھا۔ تاہم پولیس کی تفتیشی ٹیم نے موقع پر موجود شواہد، خون کے دھبے اور علی زین کی مشکوک حرکات دیکھ کر شک کیا۔

چند دن کی باریک بینی سے تحقیقات کے بعد پولیس نے اس پر گرفت مضبوط کی اور بالآخر وہ اپنے جرم کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ پولیس کے مطابق لاہور میں پب جی گیم سے جڑے جرائم کا یہ چوتھا کیس ہے۔ اس سے قبل تین نوجوان اس گیم کی شدت پسندی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے خودکشی بھی کر چکے ہیں۔ 2020 میں جب پہلا کیس سامنے آیا تو اس وقت کے سی سی پی او ذوالفقار حمید نے نوجوانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ’’پب جی‘‘ پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی۔

murder case

PUBG

Mental Effects of Online Gaming