انسانی جسم سے نور پھوٹنے کا انکشاف، موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟ سائنسدان جان کر حیران
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کی موجودگی میں روشنی کا احساس یا جسم میں کوئی عجیب سی روشنی ہے؟ اگرچہ یہ تصور بہت روحانیت سے جڑا نظر آتا ہے، مگر حالیہ تحقیق کے مطابق یہ کوئی راز نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے جو ہر زندہ انسان میں جاری رہتا ہے۔ جی ہاں، ایک نئے تحقیقاتی مطالعے کے مطابق، انسان اور تمام جانداروں میں ایک ایسی انتہائی مدھم روشنی پیدا ہوتی ہے جو زندہ رہنے تک جاری رہتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلگری کے محققین کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ روشنی دراصل ’الٹرا ویک فوٹان ایمیشن‘ (UPE) کہلاتی ہے، جو آپ کے جسم کی میٹابولزم یعنی جسمانی توانائی پیدا کرنے کے عمل کا نتیجہ ہے۔ اس روشنی کو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے، کیونکہ یہ اتنی مدھم ہوتی ہے کہ انسانی نظر سے چھپی رہتی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی ایسے کمرے میں ہوں جہاں مکمل طور پر اندھیرا ہو، تو یہ روشنی دکھائی دے سکتی ہے۔
یہ روشنی کیسے پیدا ہوتی ہے؟
آپ کے جسم کے اندر ایک بایوکیمیکل عمل جاری رہتا ہے، جس کے دوران آپ کے خلیے غیر مستحکم مالیکیولز (Reactive Oxygen Species - ROS) پیدا کرتے ہیں۔ یہ مالیکیولز، جو آپ کی میٹابولزم کے عمل کا ایک قدرتی نتیجہ ہیں، توانائی جذب کرتے ہیں اور پھر اسے روشنی کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ کا جسم ’آکسیڈیٹیو اسٹریس‘ کا شکار ہوتا ہے، یعنی جتنا زیادہ آپ کی عمر بڑھتی ہے یا بیماری کا سامنا کرتے ہیں، اتنی ہی زیادہ یہ روشنی پیدا ہوتی ہے۔
چوہوں اور پتوں پرایک دلچسپ تجربہ
کیلگری یونیورسٹی کے محققین نے اس نظریے کی جانچ کے لیے تجربات کیے۔ انہوں نے زندہ اور مردہ چوہے، اور کٹے ہوئے پتے پر ’الٹرا ویک فوٹان ایمیشن‘ کو ناپا۔ ان کا نتیجہ یہ تھا کہ زندہ چوہے بہت زیادہ روشنی پیدا کرتے ہیں، لیکن مردہ چوہوں میں یہ روشنی مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ ان کے جسموں میں میٹابولزم نہیں ہو رہا ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پتے میں خراش ڈالی گئی، تو ان حصوں میں زیادہ روشنی نظر آئی، کیونکہ وہاں آکسیڈیٹیو اسٹریس بڑھا تھا۔

یہ مدھم روشنی زندہ خلیوں کی بایوکیمیکل سرگرمی کا نتیجہ ہو سکتی ہے، جو موت کے بعد اس لیے غائب ہو جاتی ہے کیونکہ یہ عمل رک جاتا ہے۔

ڈاکٹر ڈینیئل اوبلک، جو اس تحقیق کے سربراہ تھے، نے کہا کہ ’الٹرا ویک فوٹان ایمیشن‘ کو صحت کی نگرانی کے لیے ایک نئے طریقے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ تکنیک غیر مداخلت والی ہے، یعنی کسی بھی جاندار کو نقصان پہنچائے بغیر اس کی حالت کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ٹرانسپلانٹ کے عمل میں یا فصلوں اور جنگلات کی صحت کی نگرانی کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، یہ انتہائی مدھم روشنی ناپنے والی ٹیکنالوجی ابھی پیچیدہ ہے اور اس کا عملی استعمال ابھی دور ہے۔ محققین نے واضح کیا ہے کہ ان کی تحقیق مکمل طور پر سائنسی بنیادوں پر ہے، اور یہ روحانیت یا غیر سائنسی تصورات سے آزاد ہے۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔