عدالتی سال کا آغاز، جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کے سامنے 6 سوال رکھ دیے
سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کے نام ایک اور خط سامنے آ گیا، جس میں انہوں نے چھ اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس صاحب، آپ کے بعد سب سے سینئر جج ہونے کے ناطے ادارے کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خط لکھ رہا ہوں۔ متعدد خطوط کے باوجود آپ کی جانب سے کوئی تحریری یا زبانی جواب نہیں ملا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے چھ سوالات میں کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا، سپریم کورٹ رولز کی منظوری فل کورٹ کے بجائے سرکولیشن سے کیوں دی گئی۔
انھوں نے خط میں یہ بھی کہا کہ اختلافی نوٹ سے متعلق پالیسی میں انفرادی مشاورت کیوں کی گئی، ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری ہوا، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ کیوں تشکیل نہ دیا گیا اور ججز کو خودمختاری دینے کے بجائے کنٹرولڈ فورس کے طور پر کیوں پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
متن کے مطابق خط میں مزید کہا گیا کہ ججز روسٹر بغیر مشاورت کے دستخط کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ سینئر ججز کو دو رکنی جبکہ جونیئر ججز کو تین رکنی بینچز دیے جا رہے ہیں، اہم قومی نوعیت کے مقدمات سینئر ججز کے سامنے مقرر نہیں کیے جاتے اور سینئر ججز کو کارکردگی کے بجائے سائیڈ لائن کر کے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔