Aaj News

گلیشیئر پھٹنے اور سیلابی ریلوں کے باعث گلگت بلتستان ویران، سیاحت کا مستقبل کیا ہے؟

حالیہ سیزن میں 25 افراد ہلاک ،25 ارب کا نقصان ہوا، سیاحت کا شعبہ مکمل متاثر ہو چکا ہے، ترجمان گلگت بلتستان حکومت کی آج نیوز سے خصوصی گفتگو
اپ ڈیٹ 13 اگست 2025 11:23pm

پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں حالیہ مون سون سیزن کے دوران سیلابی ریلوں کے کم از کم 20 چھوٹے، بڑے سیلاب واقعات پیش آئے ہیں جن میں حکام کے مطابق کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ نقصانات کا تخمینہ 25 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

ترجمان گلگت بلتستان حکومت، فیض اللہ فراق نے آج نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سال گلگت بلتستان میں تقریباً دس لاکھ سیاح آئے تھے، لیکن اس سال سیاحوں کی تعداد میں شدید کمی آئی ہے۔ ”ہوٹل ویران ہیں، سیاحت کا شعبہ مکمل طور پر متاثر ہو چکا ہے۔“

انہوں نے مزید بتایا کہ ”گذشتہ دو برسوں میں صورتحال یہ تھی کہ اس سیزن میں ہوٹل کے روم مکمل بُک ہوتے تھے اور جگہ نہیں ملتی تھی۔ ایسی ہی صورتحال اس علاقے کے دیگر ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں تھی۔ مگر فی الحال آج کے روز میرے ہوٹل کے 31 کمرے خالی ہیں۔ اس سے پہلے کے دنوں میں بھی کبھی ایک تو کبھی دو کمرے ہی بُک ہوئے ہیں۔“

اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے ہوٹل میں جولائی اور اگست کی نوے فیصد ایڈوانس بکنگ منسوخ کروائی گئی ہے۔ ’تقریباً سب ہی ہوٹلوں میں یہی صورتحال ہے۔ اس صنعت سے وابستہ کئی لوگ اب اپنے ہاں کام کرنے والے عارضی ملازمین، جن کی خدمات بہت پہلے حاصل کر لی جاتی ہیں، کو فارغ کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ کاروبار نہیں ہو گا توتنخواہیں کہاں سے دیں گے؟‘

گلگت بلتستان کی آبادی تقریبا 17لاکھ ہے اور محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کے مطابق گذشتہ سال دس لاکھ سے زائد لوگوں نے سیاحت کی غرض سے اس خطے کا رُخ کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ صوبہ بھرمیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام جاری ہے، گلمت گوجال کے مقام پرشاہراہ ریشم کی بحالی کا کام تیزی سے جاری ہے، شاہراہ ریشم کے دونوں اطراف مسافر گاڑیاں سڑک بحالی کی منتظر ہیں، پھنسے لوگوں کو لکڑی کے پل کے متبادل راستے کے ذریعے پارکیا جارہا ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد سیلابی تباہی نےگلگت بلتستان کا نقشہ بدل کررکھ دیا، پانی کےبڑھنے بہاؤ،دریائی کٹاؤ اور مٹی کے گرتے تودوں کی وجہ سے بحالی کےکاموں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

حکومت کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر بحالی کے کام شروع کر دیے گئے ہیں، جن میں شاہراہ ریشم کی بحالی کا کام بھی شامل ہے۔ گلمت اور گوجال میں سڑکوں کی مرمت اور متبادل راستوں کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ پھنسے ہوئے افراد کو نکالا جا سکے۔

ترجمان فیض اللہ فراق کا مزید کہنا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گلگت بلتستان کو جن موسمی حالات کا سامنا ہے وہ انسانوں کے کیے گئے اقدامات کی ہی وجہ سے ہے۔

انھوں نے کہا کہ ”پانی کے راستوں پر تعمیرات ہوئیں، پہاڑوں کو بیدردی سے کاٹا گیا اور جگہ جگہ بغیر کسی اصول ضابطے کے تعمیرات ہوئیں۔ سرمایہ کاری ہوئی مگر اس سب میں ماحول اور قدرتی نظام کو تباہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب گلگت بلتستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔“

اُن کا کہنا تھا کہ جب بابو سر ٹاپ اور ہنزہ جیسی آفات آئیں گئی تو پھر سیاح علاقے کا رخ کیوں کریں گے؟

انھوں نے کہا موسمی حالات کی وجہ سے جو تباہی ہوئی ہے وہ لوگوں کی سوچ سے بھی زیادہ ہے جس کے بدترین اثرات کچھ عرصے میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ”ایک طرف سیلابی صورتحال ہے تو دوسری جانب اِس وقت پھلوں کا موسم ہے مگر باغات کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے۔ ’زرعی زمینیں کٹاؤ کا شکار ہیں، گلگت بلتستان اپنی ہی زمین کھو رہا ہے۔“

انھوں نے کہا کہ ”ہم نے مل کر قدرتی نظام میں مداخلت کی اور اس کی قدر نہیں کی تو اب قدرت ہم سے بدلہ لے رہی ہے۔“

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان کے سیاحتی مقام ہنزہ کے قریب احسن آباد کے مقام پر شیشپر گلیشیئر میں پیش آئے واقعے اور ہنزہ ہی کے علاقے گوجال اور گلمت میں دریائے ہنزہ کے بپھرنے سے نالے میں آنے والی شدید طغیانی کے باعث دو مختلف مقامات پر شاہراہ قراقرم ہر قسم کی ٹریفک کے لیے تاحال بند ہے۔

اسی طرح بلتستان کے علاقے شگر میں چھ مختلف مقامات پر سیلابی ریلوں کے باعث شاہراہ کے ٹو بھی بند ہو چکی ہے۔ ان آفات کے پیش نظر خطے میں سیاحتی سرگرمیاں بڑی حد تک متاثر ہوئی ہیں جس کے باعث ہونے والے نقصانات کا تخمینہ کروڑوں روپے میں ہے۔ اس صورتحال کے باعث مقامی لوگ بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

climate change

گلگت بلتستان

flash floods

devastated

glacier eruptions

What is the future of tourism?