کراچی ڈمپر حادثہ: ’ہم بچی کا جہیز جمع کر رہے تھے، اور آج اس کے کفن کا بندوبست کر رہے ہیں‘
روشنیوں کے شہر کراچی میں یکے بعد دیگرے ایسی راتیں گزر رہی ہیں جہاں خوشیوں کے خواب ملبے اور خون میں بدلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ رات راشد منہاس روڈ پر پیش آنے والا خوفناک حادثہ نہ صرف ایک خاندان کے لیے قیامت بن کر آیا بلکہ شہر کے ہر حساس دل کو زخمی کر گیا۔ ایک تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل کو اس بے رحمی سے کچلا کہ لمحوں میں ایک بہن اور بھائی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی، اور باپ اسپتال کے بستر پر بے ہوش پڑا ہے، جسے ابھی تک یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس کی آنکھوں کا تارا بیٹا اور گڑیا جیسی بیٹی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
حادثے میں جاں بحق بائیس سالہ ماہ نور اور چودہ سالہ علی رضا کے چچا ذاکر میڈیا کے سامنے آبدیدہ کھڑے تھے۔ آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں درد کی کاٹ تھی۔ وہ بتا رہے تھے کہ بائیس سالہ ماہ نور کی اگلے ماہ شادی تھی، جہیز کے لیے گھر والے ایک ایک پیسہ جوڑ رہے تھے۔
’ہم بچی کا جہیز جمع کر رہے تھے، اور آج ہم اس کے کفن کا بندوبست کر رہے ہیں… کہاں سے لائیں صبر؟ کیسے کریں صبر؟ ہمیں صرف انصاف چاہیے۔‘ ذاکر کی یہ باتیں سننے والوں کا کلیجہ چیر رہی تھیں۔
ذاکر نے بتایا کہ متاثرہ فیملی ملیر سے واپس گھر جارہی تھی، ان کے زخمی بھائی جو کپڑے کا کام کرتے تھے جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں، ان کے دماغ میں شدید چوٹیں آئی ہیں۔
ماہ نور سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑی اور علی سب سے چھوٹا تھا۔ ایک طرف بہن کی شادی کے خواب سجائے گئے تھے، دوسری طرف چھوٹے بھائی کی معصوم ہنسی گونجتی تھی… دونوں ہی لمحوں میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔
دادا کی آنکھوں سے آنسو تھمتے نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماہ نور اگلے ماہ کی 10 تاریخ کو دلہن بننے والی تھی، گھر میں شادی کی تیاریاں جاری تھیں۔
وہ بس یہی کہہ پائے: ’ماہ نور کے کپڑے رہ گئے تھے، میں نے کہا تھا آج کل میں بنا لو… میرا بیٹا بھی زخمی ہے اور صدمے میں ہے… میں کیسے بتاؤں اپنے بیٹے اور بہو کو کہ بچے نہیں رہے۔‘
دادی کی حالت بھی غیر ہے، بار بار پوچھتی ہیں کہ ’ماہ نور اور علی ہسپتال سے کب آئیں گے؟‘۔
علاقے کی فضا سوگوار ہے، دوست احباب اور رشتہ دار غم سے نڈھال۔ حادثے کے بعد عوام کا غم و غصہ سڑکوں پر دوڑتے بے لگام ڈمپرز پر نکلا۔ مشتعل شہریوں نے سات ڈمپروں کو آگ لگا دی اور حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا، جسے بعد میں پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ ایس ایس پی سینٹرل کے مطابق ڈمپر ڈرائیور گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دس سے زائد مشتعل افراد بھی زیر حراست ہیں۔
دوسری جانب ڈمپر ڈرائیور ایسوسی ایشن نے سات گاڑیاں جلانے کے خلاف احتجاج کیا اور سپرہائی وے کو بند کر دیا، حتیٰ کہ نیشنل ہائی وے بلاک کرنے کی دھمکی بھی دی۔ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی لیاقت محسود کا کہنا تھا کہ یہ حادثہ ٹینکر کی ٹکر سے ہوا، اور ڈمپروں کو جلانے کی ذمہ داری سندھ حکومت پر ہے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اس سانحے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزم کو قرار واقعی سزا دی جائے، اور سندھ حکومت ڈمپر مافیا کے خلاف فوری کارروائی کرے۔
انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ قانون ہاتھ میں لینے سے گریز کریں، لیکن سوال یہ ہے کہ جب سڑکیں انسانی جانوں کی قیمت نگل لیں اور انصاف برسوں تک کاغذوں میں دفن رہے، تو غریب اور لاچار لوگ اپنی چیخ کہاں لے جائیں؟
یہ حادثہ صرف ایک واقعہ نہیں، ایک چیختی ہوئی حقیقت ہے کہ اس شہر میں زندگی سستی اور گاڑیاں بے قابو ہیں۔ جب تک قانون کی گرفت مضبوط نہیں ہوگی، نہ ماہ نور کی روح کو سکون ملے گا، نہ علی رضا کے خوابوں کو انصاف۔ اور شاید اگلی کہانی پھر کسی اور گھر کی ہوگی، جہاں جہیز کے صندوق کے بجائے جنازے کا سامان تیار ہو رہا ہوگا۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔