Aaj News

اب کی بار ٹرمپ سرکار سے بے لچک بیان تک، ’مودی حکومت واقعی بہت آگے بڑھ چکی‘

بھارت کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود روس سے سستا تیل جاری رکھنے کا اعلان، نیویارک ٹائمز رپورٹ
اپ ڈیٹ 05 اگست 2025 11:58am

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کے اعلان پر گودی میڈیا اور صحافی تلملا اٹھے ہیں۔ ٹرمپ کی بھارت کے خلاف سخت معاشی پالیسیوں پر بلآخر مودی حکومت نے جواب دے دیا ہے البتہ بھارت کے سیاسی و صحافتی حلقوں کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت نہ صرف بڑی مقدار میں روس سے تیل خرید رہا ہے بلکہ اسے فروخت کرکے منافع بھی کما رہا ہے۔ بھارت کو کوئی پرواہ نہیں کہ یوکرین میں روسی فوج کے ہاتھوں کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اب بھارت پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے بیان پر بھارت کی وزارت خارجہ نے اپنے رد عمل میں کہا کہ امریکہ اپنی نیوکلیئر انڈسٹری کے لیے روس سے یورینیم کمپاؤنڈ خریدتا ہے، اسے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر بھارت روس سے رعایتی تیل لے تو اعتراض شروع ہو جاتا ہے؟

بھارتی حکام کے مطابق ہماری توانائی کی ضروریات، معیشت اور صارفین کے مفادات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ پر، بھارت کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ بھارت نے یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد روس سے تیل درآمد کرنا اس وقت شروع کیا جب روایتی سپلائیز یورپ کی طرف منتقل کر دی گئی تھیں۔ امریکہ نے اس وقت خود بھارت کو روسی درآمدات کی ترغیب دی تاکہ عالمی توانائی مارکیٹ میں استحکام قائم رکھا جاسکے۔

اضافی تجارتی ٹیرف بعد بھارتی صحافیوں کا شدید رد عمل

ٹرمپ کی طرف سے بھارت پر مزید اضافی ٹیرف لگائے جانے پر بھارتی صحافیوں کا ردعمل سامنے آیا ہے۔

نامور بھارتی صحافی راجدیپ سردیسائی نے ایکس پر ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ اب کی بار ٹرمپ سرکار سے لے کر اب وزارتِ خارجہ کے سخت اور بے لچک بیان تک، جو ٹرمپ انتظامیہ کی منافقت کو بے نقاب کر رہا ہے، مودی حکومت واقعی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نمستے ٹرمپ کو بھول جاؤ، اب یہ ہے بے وفا ڈونلڈ۔

بھارتی صحافی راہول شوشنکر نے ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ٹرمپ نے بھارت کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیرف میں ”کافی حد تک اضافہ“ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کے سامنے ’’مودی کے ہتھیار ڈالنے‘‘ کی بات سراسر غلط ہے۔

سونم ماہاجن نامی خاتون صحافی نے لکھا کہ اسٹریٹجک لحاظ سے واشنگٹن ایشیا میں اپنے سب سے اہم شراکت داری کو تیزی کے ساتھ ضائع کر رہا ہے۔ نیو دہلی کو اب علاقے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ایک اور بھارتی صحافی شیکھر گپتا نے ایکس پر اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ ٹرمپ کا غصہ کسی اصول یا پالیسی پر نہیں ہے۔ یہ ایک خود پسند شخص کا غصہ ہے جو جنگ بندی کے لیے تعریفی سراہنا نہ ملنے پر دونوں ممالک (بھارت-امریکہ) کے تعلقات کو نقصان پہنچا رہا ہے جو تین دہائیوں میں تعمیر ہوئے تھے۔

متھو کرشنن نامی صحافی نے بھارت پر ٹرمپ کے عائد کردہ اضافی ٹیرف کے خلاف ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ روسی تیل خریدنا ہماری مرضی ہے، حالانکہ یہ اب بھارت اور امریکہ کے درمیان تنازع کا سبب بن چکا ہے۔

ان کے بقول، ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی عوام کو روس سے سستا تیل درآمد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم ابھی بھی ایندھن کی قیمتیں بہت زیادہ ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ نہیں جانتا کہ روسی تیل سے کس کو فائدہ ہوا۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے بلند ٹیرف سے کئی شہری متاثر ہوں گے۔ کسی کو فائدہ نہیں، بس عام آدمی کے لیے درد ہی درد ہے۔

برطانوی سیاستدان ربیکا اسمتھ نے بھی اس حوالے سے ٹوئٹ میں لکھا کہ صدر ٹرمپ جانتے ہیں کہ بھارت صرف دباؤ کے سامنے ردعمل دیتا ہے، انہوں نے پہلے بھی یہ کیا تھا، اور اب دوبارہ کر رہے ہیں۔

ربیکا اسمتھ کے مطابق ٹیرف لگانے سے لے کر بھارت کے روسی تیل کو دوبارہ فروخت کے کھیل کو بے نقاب کرنے تک، وہ مودی کے ”شراکت دار“ کے کردار کو نہیں خرید رہے۔ کیونکہ جب دباؤ ڈالا جاتا ہے تو بھارت ہر بار ہار مان لیتا ہے۔

علاوہ ازیں جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر سیکیورٹی اور ڈیٹرنس جیسے موضوعات کی خاص مہارت رکھنے والی ڈاکٹر رابعہ اختر نے بھارتی ردعمل پر کہا کہ ”آخرکار بھارت کو وہ تجربہ ہو رہا ہے جو کبھی اس نے خود ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔“

انہوں نے کہا کہ دہائیوں سے پاکستان کو ہر اقدام، ہر شراکت داری، اپنے دفاعی موقف، اور توانائی کے تنوع کی وضاحت دینا پڑی۔ چاہے ایران سے تعلقات بڑھانا ہو، چین کے ساتھ اسٹریٹجک ہم آہنگی برقرار رکھنی ہو، یا خود انحصاری کے لیے دوہری استعمال والی ٹیکنالوجیز کی تلاش ہو، مغرب سے جواب ہمیشہ ایک ہی رہا: غیر ذمہ دارانہ، عدم استحکام پیدا کرنے والا۔

ڈاکٹر رابعہ اختر نے مزید لکھا کہ اب بھارت روسی تیل کی درآمدات کا دفاع کرنے کے لیے ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کا حوالہ دیتا ہے، مگر سوال کیے جانے پر چڑ جاتا ہے۔ اچانک قومی مفاد مقدس ہو گیا، اور خود مختاری غیر مذاکرہ شدہ ہوگئی۔

دوسری جانب نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود روس سے سستا تیل جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

ہفتہ کو بھارتی حکام نے کہا تھا کہ وہ روس سے سستا تیل خریدنا جاری رکھیں گے، حالانکہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد ہونے والی ممکنہ سزاؤں کا خطرہ موجود ہے۔ یہ وہ تازہ ترین موڑ ہے جو اس مسئلے میں آیا ہے جسے نیو دہلی نے سمجھا تھا کہ وہ اس کو حل کر چکا ہے۔

Narendra Modi

Russian oil

President Donald Trump

Trump's Tariff

india purchasing

indian media burst on trump