Aaj News

چینی بحران: شوگر ملز مالکان اور برآمد کنندگان کے نام طلب، حکومت کا نام دینے سے گریز

چینی کی قیمتوں میں حالیہ رد و بدل سے شوگر ملز نے 300 ارب روپے کمائے، آڈیٹر جنرل
اپ ڈیٹ 29 جولائ 2025 07:33pm

چینی بحران کے معاملے پر پی اے سی نے شوگر ملز مالکان اور برآمد کنندگان کے نام مانگ لیے۔ حکومت نے ملز مالکان کے نام دینے سے گریز کیا۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں حالیہ ردوبدل سے شوگر ملز نے 300 ارب روپے کمائے۔ اجلاس کے دوران عامرڈوگر اور حکومتی ارکان کے درمیان جھڑپ اور سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

اسلام آباد میں چیئرمین جنید اکبرکی زیرصدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں چینی بحران پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، اجلاس کے دوران چینی کی برآمد، درآمد، قیمتوں میں اضافے اور شوگر ملز مالکان کی اجارہ داری پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔

جولائی 2024 سے جون 2025 کے درمیان چینی برآمد کرنے والی شوگر ملز کی فہرست کے مطابق سات کروڑ 30 لاکھ 90 ہزار کلو چینی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نے برآمد کی۔ تاندلیاںوالا شوگر ملز نے 4 کروڑ 14 لاکھ 12ہزار دو سو کلو چینی برآمد کی۔ حمزہ شوگر ملز نے تین کروڑ 24 لاکھ 86 ہزار کلو چینی برآمد کی۔

اسی طرح تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمٹیڈ نے دو کروڑ 91 لاکھ سات ہزار کلو چینی برآمد کی ۔ المعیز انڈسٹریز نے دو کروڑ 94 لاکھ 52ہزار چینی برآمد کی۔ مجموعی طور پر 67 شوگر ملوں نے 40 کروڑ ڈالر مالیت کی چینی برآمد کی۔

اجلاس میں ارکان کی جانب سے حکومت، شوگر مافیا اور ایڈوائزری بورڈ پر سخت تنقید کی گئی۔ اس دوران آڈیٹر جنرل پاکستان نے بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں حالیہ ردوبدل سے شوگر ملز نے اربوں روپے کمائے۔

سیکرٹری صنعت و پیداوار کی اجلاس کو بریفنگ

سیکرٹری صنعت و پیداوار نے اجلاس کو بتایا کہ شوگر انڈسٹری کو صوبائی حکومتیں ریگولیٹ کرتی ہیں اور شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وفاق اور صوبوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ بریفنگ کے مطابق بورڈ چینی کے موجودہ اسٹاک، ضروریات اور پیداوار کا جائزہ لیتا ہے، اور کرشنگ سیزن ہر سال 15 نومبر سے 15 مارچ تک جاری رہتا ہے۔

سیکرٹری صنعت و پیداوار کے مطابق گزشتہ دس سال میں 5.09 ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی، جن میں سے 3.927 ملین ٹن برآمد ہوئی۔ سال 2023-24 میں 68 لاکھ ٹن چینی پیدا ہوئی جبکہ مجموعی اسٹاک 76 لاکھ ٹن تھا، جس میں سے 8 لاکھ ٹن سرپلس قرار دی گئی۔ اس پر ای سی سی نے 7.9 لاکھ ٹن برآمد کی اجازت دی، مگر صرف 7.5 لاکھ ٹن ہی برآمد کی جا سکی۔ تاہم، بعد ازاں چینی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سیکرٹری صنعت نے یہ بھی بتایا کہ چینی کے موجودہ ذخائر نومبر تک کے لیے کافی ہیں لیکن اس سال درآمد کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی نے بتایا کہ گنے کی پیداوار کم ہونے اور کرشنگ میں تاخیر کے باعث مسائل پیدا ہوئے۔ ان کے مطابق اس وقت چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے ہے، جو اگست میں 167 اور ستمبر میں 169 روپے تک جا سکتی ہے۔ تاہم چیئرمین پی اے سی کے استفسار پر انہوں نے تسلیم کیا کہ چینی کی فی کلو فروخت کی اوسط قیمت 173 روپے ہے۔

شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست طلب

چیئرمین پی اے سی اور دیگر ارکان نے قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں چینی 210 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ ’صرف 42 شوگر ملز کی خاطر عوام کو ذلیل کیا جا رہا ہے اور یاد دلایا کہ انہوں نے شوگر ملز مالکان کی فہرست طلب کی تھی۔

سیکرٹری صنعت نے بتایا کہ ان کے پاس ملز کی فہرست موجود ہے، جس پر چیئرمین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شوگر ملز نہیں بلکہ مالکان اور ڈائریکٹرز کی تفصیلات درکار ہیں۔ پی اے سی نے فوری طور پر شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست طلب کر لی۔

اجلاس میں شوگر ملز کے نام اور ملکوں کی تفصیل بھی پیش

بعد ازاں وزارت صنعت و پیداوار نے شوگر ملز مالکان اور ڈائریکٹرز کی فہرست، چینی برآمد و درآمد کرنے والی شوگر ملز کے نام اور ملکوں کی تفصیل بھی پیش کر دی۔

 چینی ایکسپورٹ کرنے والی ملز کی فہرست
چینی ایکسپورٹ کرنے والی ملز کی فہرست

 جن ممالک کو چینی ایکسپورٹ کی گئی ان کی فہرست
جن ممالک کو چینی ایکسپورٹ کی گئی ان کی فہرست

بریفنگ کے مطابق گزشتہ برس 40 کروڑ ڈالر مالیت کی 7 لاکھ 49 ہزار ٹن چینی برآمد کی گئی، جس میں سے سب سے زیادہ یعنی 4 لاکھ 94 ہزار ٹن چینی افغانستان کو بھیجی گئی۔ سب سے زیادہ چینی جے ڈی ڈبلیو شوگر مل نے برآمد کی۔

ارکان پی اے سی نے انکشاف کیا کہ 117 روپے فی کلو برآمد کی گئی چینی بعد ازاں 170 روپے میں درآمد کی گئی۔ خواجہ شیراز نے سوال اٹھایا کہ یہ ڈاکے صرف تب ہی کیوں پڑتے ہیں جب ملز مالکان کی حکومت آتی ہے؟

عامرڈوگر اور حکومتی ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ

رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سب سے زیادہ شوگر ملز زرداری خاندان کی ہیں، دوسرے نمبر پر جہانگیر ترین اور تیسرے نمبر پر شریف فیملی کی ملز آتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2017 میں شوگر مافیا کو برآمد کی اجازت کے ساتھ 10 روپے فی کلو سبسڈی دی گئی۔ عامر ڈوگر نے مزید کہا کہ سندھ کی ساری شوگر ملز آصف زرداری کی ہیں۔

ان کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے سخت ردعمل دیا اور کہا، ’عامر ڈوگر اپنے الزامات کو ثابت کریں یا واپس لیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ شوگر سیکٹر میں حکومتی مداخلت ختم ہونی چاہیے۔‘

سینیٹر بلال نے بھی عامر ڈوگر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں، جبکہ چیئرمین کمیٹی خواجہ شیراز نے کہا کہ چینی کی برآمد یا درآمد کے تمام فیصلے مختلف وزارتوں میں سمریوں کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ خواجہ شیراز نے مزید استفسار کیا، ’کیا کسی نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ چینی درآمد پر دی گئی ٹیکس چھوٹ آئی ایم ایف معاہدے کے خلاف تھی؟‘

چیئرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ ان شوگر ملز مالکان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی جنہوں نے قیمتیں نہ بڑھانے کی یقین دہانی کروا کر بھی قیمتیں بڑھا دیں؟ اس پر سیکرٹری صنعت نے وضاحت کی کہ چینی کی ”ایکس مل“ قیمت شوگر ایڈوائزری بورڈ کی سفارش پر مقرر کی جاتی ہے۔

عامر ڈوگر کے ریمارکس پر سینیٹر افنان اللہ نے طنز کرتے ہوئے کہا، ’یہ بھی بتائیں کہ آپ کی پارٹی کس کے پیسے سے بنی؟‘ جس کے بعد اجلاس میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور ماحول کشیدہ ہو گیا۔

معین پیرزادہ نے شوگر ایڈوائزری بورڈ کو ”فساد کی جڑ“ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ شوگر مافیا براہ راست حکومتوں کا حصہ ہے، اور عوام کو لوٹ کر ذاتی مفاد حاصل کیا جا رہا ہے۔

پی اے سی نے آخر میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ شوگر ملز مالکان کے نام، ان کے کاروباری مفادات اور برآمد و درآمد میں کردار کو قوم کے سامنے واضح کیا جائے تاکہ چینی بحران کے اصل ذمے داروں کا تعین ہو سکے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا انکشاف

دوران اجلاس آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے انکشاف کیا کہ چینی کی قیمتوں میں حالیہ رد و بدل سے شوگر ملز نے تین سو ارب روپے کمائے۔ جس پر چئیرمین پی اے سی نے کہا کہ صرف 42 خاندانوں نے 3 سو ارب روپے کمائے ہیں۔

اس دوران رکن کمیٹی خواجہ شیراز کا کہنا تھا کہ بھارت میں اس وقت پاکستانی 143 روپے کے حساب سے چینی دستیاب ہے۔ چئیرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ کیوں کسی کو بھی شوگر مل لگانے کی اجازت نہیں دی جاتی؟

سیکرٹری فوڈ سیکورٹی نے کہا کہ سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کو کم کرنے کا مقصد سستی چینی فراہم کرنا تھا۔ اگر درآمدی چینی پر 80 روپے کے ٹیکس ہوں گے تو مہنگی ملے گی۔

چیئرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ جب تمام صوبوں نے کہا کہ چینی کا وافر اسٹاک موجود ہے تو کیوں درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

sugar scandal

sugar crisis

public accounts committee

sugar export