سابق امریکی صدر کے قتل سے پہلے سی آئی اے ایجنٹ کی قاتل سے خفیہ ملاقات کا انکشاف
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی کہانی میں نیا اور لرزہ خیز موڑ سامنے آیا ہے، حال ہی میں جاری کردہ سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے ”سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی“ (سی آئی اے) کا ایک خفیہ ایجنٹ امریکی صدر کے قاتل لی ہاروے اوسوالڈ کے ساتھ قتل سے پہلے رابطے میں تھا — اور بعد میں امریکی کانگریس کی تفتیش کو غلط رخ دینے کے لیے منظم مداخلت بھی کرتا رہا۔
امریکی خبر رساں ادارے ”ایکسئیوس“ کے مطابق، سی آئی اے افسر جارج جوانائیڈز نے جنوری 1963 میں ”ہاورڈ گلیبر“ کے نام سے فرضی شناخت اختیار کی، اور کیوبا کے مخالف طلبہ گروہوں میں نفسیاتی جنگ اور سیاسی مداخلت کی سربراہی کی۔ انہی دنوں 23 سالہ اوسوالڈ نیو اورلینز میں کمیونسٹ حمایت پر مبنی پمفلٹس بانٹ رہا تھا، جب اس کا تصادم ایسے ہی ایک گروہ ”ڈی آر ای“ (DRE) سے ہوا — اور یہ جھگڑا میڈیا کی نظر میں آ گیا، جس سے اوسوالڈ کی ”کاسٹرو ہمدردی“ منظر عام پر آئی۔
لیکن اصل ہولناک موڑ اس وقت آیا جب انکشاف ہوا کہ ڈی آر ای کو فنڈنگ دینے والا اور ان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے والا سی آئی اے افسر جارج جوانائیڈز ہی ”ہاورڈ“ تھا، جس کا نام دہائیوں سے جے ایف کے قتل کی سازشی تحقیقات میں گردش کرتا رہا۔ مگر سی آئی اے نے ہمیشہ اسے اپنا بندہ ماننے سے انکار کیا — یہاں تک کہ جوانائیڈز نے اپنی موت (1990) تک اس تعلق سے صاف انکار کیا۔

دستاویزات کے مطابق، 1976 میں جب امریکی ایوانِ نمائندگان نے جے ایف کے قتل کی دوبارہ تفتیش شروع کی، تو یہی جوانائیڈز سی آئی اے کا نمائندہ مقرر کیا گیا۔ اس نے تفتیشی کمیٹی کے سامنے کھلے عام جھوٹ بولا کہ ”ہاورڈ“ نامی کوئی افسر ڈی آر ای کے ساتھ منسلک نہیں رہا۔
کمیٹی کے سابق چیف کاؤنسل رابرٹ بلیکلی نے 2014 میں گواہی دی کہ جوانائیڈز نے جان بوجھ کر معلومات چھپائیں، جبکہ ایک اور محقق ڈین ہارڈوے نے حالیہ گواہی میں انکشاف کیا کہ جوانائیڈز ایک مکمل ”خفیہ آپریشن“ کے تحت کانگریس کو گمراہ کرتا رہا۔
جے ایف کے قتل پر تحقیق کرنے والے معروف مصنف جیفرسن مورلے نے کہا، ’جوانائیڈز کے بارے میں بنائی گئی کور اسٹوری اب مردہ ہو چکی ہے۔ سی آئی اے اب لی ہاروے اوسوالڈ پر اپنا مؤقف بدل رہی ہے — یہ بہت بڑی بات ہے۔‘

یہ انکشافات 1992 کے ”جے ایف کے ریکارڈز ریلیز ایکٹ“ کے تحت سامنے آئے، جس میں سابق صدر جو بائیڈن اور ٹرمپ کی حکومتوں نے متعدد خفیہ فائلز جاری کیں۔ لیکن سوال اب بھی باقی ہے: کیا یہ سب کچھ صرف ایک قاتل کا کام تھا؟ یا پھر دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی نے تاریخ کا رُخ موڑنے کے لیے خون میں ہاتھ رنگے؟
یہ سچ شاید آج بھی سرکاری فائلوں کے پیچھے دفن ہے — مگر ہر نئے انکشاف کے ساتھ یہ حقیقت قریب آتی جا رہی ہے۔
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔