سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت خطرے میں؟
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کی نمبر گیم میں بڑی تبدیلی آ گئی ہے، جس سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت شدید دباؤ میں آ گئی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں موجود 35 آزاد ارکان اب فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکے ہیں، جن کی حمایت یا مخالفت سے حکومت کا مستقبل طے ہوگا۔
کے پی کے اسمبلی کی تازہ صورتحال
خیبرپختونخوا اسمبلی 145 نشستوں پر مشتمل ہے، جس میں اس وقت 25 مخصوص نشستیں خالی ہیں۔ ان میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی نشستیں شامل ہیں۔
حکومت کو اس وقت 93 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جن میں 58 ارکان وہ ہیں جو پی ٹی آئی سے وابستہ تھے مگر اب آزاد حیثیت میں ایوان میں موجود ہیں، جب کہ باقی 35 آزاد ارکان بھی پی ٹی آئی سے ہی منتخب ہو کر آئے تھے۔
اگر یہ 35 آزاد ارکان حکومت کے ساتھ رہتے ہیں تو علی امین گنڈاپور کی حکومت برقرار رہ سکتی ہے، تاہم ان کی علیحدگی کی صورت میں حکومتی اتحاد کی تعداد گھٹ کر صرف 58 رہ جائے گی، جو ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے ناکافی ہے۔
اپوزیشن کی پوزیشن اور ممکنہ حکمت عملی
اپوزیشن میں اس وقت مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 9، 9 ارکان، پیپلز پارٹی کے 5، اور اے این پی و پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے 2، 2 ارکان شامل ہیں، جن کی مجموعی تعداد 27 بنتی ہے۔
اگر خالی مخصوص نشستیں آئینی اصولوں کے مطابق ان جماعتوں کو الاٹ ہو جاتی ہیں تو اپوزیشن کی مجموعی تعداد 52 تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورت میں اگر آزاد ارکان اپوزیشن سے اتحاد کر لیتے ہیں تو ایوان میں ان کی تعداد 88 تک جا سکتی ہے، جو حکومت بنانے کے لیے درکار 73 ارکان کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔
آزاد حیثیت اور فلور کراسنگ سے استثنا
یہ آزاد ارکان چونکہ کسی جماعت کے باقاعدہ رکن نہیں ہیں، اس لیے اگر وہ حکومت کے خلاف ووٹ دیں یا اپوزیشن کا ساتھ دیں، تو ان پر آئینی شق 63 (اے) کا اطلاق نہیں ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ان ارکان کی حمایت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے نہایت اہم ہو چکی ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں موجودہ صورتحال ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکی ہے اور تمام نظریں ان 35 آزاد ارکان کے آئندہ اقدام پر لگی ہوئی ہیں۔ ان کا فیصلہ ہی یہ طے کرے گا کہ علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ رہیں گے یا اقتدار کا توازن اپوزیشن کی جانب جھک جائے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور یہ نشستیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔
Aaj English















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔