ظہران ممدانی کی نیویارک میں تاریخی فتح، پہلے مسلم میئر بننے کی راہ ہموار، امریکی مسلم کمیونٹی کیلئے نئی امید
تینتیس سالہ ظہران ممدانی نے نیویارک سٹی کے میئر بننے کی دوڑ میں پہلا بڑا معرکہ سر کر لیا ہے۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پرائمری میں سابق گورنر اینڈریو کومو کو حیران کن شکست دے دی، جس کے بعد وہ نیویارک کے پہلے مسلم میئر بننے کے لیے مضبوط امیدوار بن چکے ہیں۔
ظہران ممدانی کی یہ فتح صرف انتخابی نہیں، بلکہ ایک سماجی و تہذیبی پیش رفت بھی ہے، خاص طور پر نیویارک میں مقیم مسلم برادری کے لیے، جو تقریباً دس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ان کی کامیابی نہ صرف مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں ایک تاریخی اضافہ ہے بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ مسلم شناخت کو امریکی سیاست میں اب مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
ظہران ممدانی کے میئر بننے کی صورت میں نیویارک کی مسلم کمیونٹی کو کئی اہم فائدے حاصل ہو سکتے ہیں:
-
سیاسی نمائندگی: پہلی بار کوئی ایسا میئر ہوگا جو نہ صرف مسلمان ہے بلکہ مساجد، رمضان، حلال فوڈ کلچر اور مسلم ثقافت سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔ یہ مسلم کمیونٹی کو پالیسی سطح پر درپیش مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگا۔
-
نفرت انگیزی اور اسلاموفوبیا کے خلاف مؤثر اقدامات: ظہران نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ اگر وہ میئر منتخب ہوئے تو نفرت انگیز جرائم کے خلاف بجٹ میں اضافہ کریں گے، اور اسلاموفوبیا کے خلاف عملی اقدامات کریں گے۔
-
غریب طبقات اور مہاجرین کی آواز: ان کا منشور کرایہ فریز کرنے، فری بس سروس، اور شہری سطح پر چلنے والی کم قیمت والی دکانوں کے قیام پر مبنی ہے — جس سے نہ صرف کم آمدنی والے مسلمان بلکہ دیگر اقلیتیں بھی براہ راست مستفید ہوں گی۔
-
نوجوانوں کو سیاست میں شامل کرنا: ظہران کی سوشل میڈیا مہم، میمز، ٹک ٹاک ویڈیوز اور اردو، بنگالی و ہسپانوی زبان کے استعمال نے پہلی بار بہت سے نوجوان مسلمانوں کو امریکی سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا ہے۔
ایک نئی سیاست کی ابتدا
ظہران ممدانی نے اینڈریو کومو جیسے تجربہ کار اور بھاری سرمایہ رکھنے والے امیدوار کو شکست دی۔ انہوں نے بڑے ڈونرز اور روایت پر مبنی انتخابی مہم کو مسترد کر کے عوامی جڑوں والی تحریک کھڑی کی — جس میں طلبہ، تارکین وطن، کرایہ دار، اور نوجوان تخلیق کاروں نے بھرپور حصہ لیا۔
ان کی انتخابی مہم نے فلسطینیوں کی حمایت، اسرائیل پر تنقید، اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے احترام پر مبنی جرات مندانہ مؤقف اختیار کیا، جو مسلم کمیونٹی کی ترجیحات سے ہم آہنگ تھا۔
ظہران ممدانی کون ہیں؟
ظہران ممدانی یوگنڈا میں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر میں نیویارک منتقل ہوئے۔ وہ نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور ”Democratic Socialists of America“ کے سرگرم رکن ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نیویارک ایک ایسا شہر ہے جہاں ایک چوتھائی آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے، اور 5 لاکھ بچے بھوکے سوتے ہیں — اور اسی حقیقت کو بدلنے کا عزم انہوں نے اپنے منشور میں ظاہر کیا ہے۔
آئندہ کیا ہوگا؟
اگر نومبر کے عام انتخابات میں ظہران ممدانی کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ نیویارک سٹی کے 111ویں اور پہلے مسلمان میئر ہوں گے۔ موجودہ میئر ایرک ایڈمز اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں اور آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں، اس لیے ممدانی کی فتح کے امکانات روشن ہیں۔
ظہران ممدانی کی کامیابی امریکی مسلمانوں کے لیے نئی سیاسی راہیں کھول سکتی ہے۔ یہ پیغام ہے کہ اگر پرعزم قیادت ہو، تو پس منظر، مذہب یا رنگ رکاوٹ نہیں بنتے۔ ان کی فتح صرف نیویارک کی نہیں، بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک علامتی اور حوصلہ افزا لمحہ ہے۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔