آسام میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رجحان، مودی سرکار کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے، جن کا نشانہ زیادہ تر مسلمان اور اقلیتی برادریاں بن رہی ہیں۔
ہندوتوا واچ انڈیپنڈنٹ ریسرچ پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق آسام پولیس ان ماورائے عدالت قتل میں براہِ راست ملوث پائی گئی ہے، جس سے انتہاپسند ہندوتوا سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہندوتوا واچ کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کے دور میں آسام میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کو نشانہ بنانے کے واقعات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
نومبر 2021 میں آسام کے اسٹوڈنٹس یونین کے رہنما انیمیش بھویان کو مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے میں پولیس نے 13 افراد کو گرفتار کیا، جن میں نیرج داس اور اس کا والد بھی شامل تھے۔ تاہم، یکم دسمبر کی رات نیرج داس پولیس حراست میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گیا۔
ہندوتوا واچ کے مطابق نیرج داس کی موت پولیس کے ہاتھوں پہلا ماورائے عدالت قتل نہیں تھا۔ دسمبر 2021ء تک، آسام پولیس نے کم از کم 31 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا۔ پولیس ریکارڈز کے مطابق، مئی سے نومبر 2021 کے درمیان 28 افراد فائرنگ میں مارے گئے، جب کہ دسمبر کے آغاز میں مزید تین افراد ہلاک ہوئے، جن میں نیرج داس بھی شامل تھا۔
ان واقعات نے انسانی حقوق کے علمبرداروں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل نہ صرف قانون کی حکمرانی کو پامال کرتے ہیں، بلکہ ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل کرتے ہیں۔
مودی سرکار کی سرپرستی میں جاری ان پالیسیوں پر فوری نظرِثانی اور عدالتی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے تاکہ اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔