کشمیری نوجوان ٹیٹوز کیوں ہٹوا رہے ہیں؟
مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی ایک خاموش لیکن نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وہ نوجوان جنہوں نے برسوں پہلے اپنے جسموں پر ”آزادی“، ”مزاحمت“ یا مذہبی عقائد سے جڑے ٹیٹوز بنوائے تھے اب بڑی تعداد میں یہ نشانات ہٹوا رہے ہیں۔ لیزر کلینکس میں اپائنٹمنٹس کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور ہر ٹیٹو کے پیچھے خوف، ندامت، یا نئے مستقبل کی تلاش کی ایک کہانی چھپی ہوئی ہے۔
اٹھائیس سالہ سمیر وانی جنہوں نے اپنے بازو پر ”آزادی“ لکھوایا تھا کہتے ہیں کہ یہ ٹیٹو کبھی ان کے لیے ”طاقت اور مزاحمت“ کی علامت تھا لیکن آج یہ ان کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ سمیر نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ ’جب ایک چیک پوائنٹ پر سیکورٹی اہلکار نے میری بازو کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ میں خوش قسمت تھا کہ وہ اردو پڑھ نہیں سکتا تھا۔ اسی وقت مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ٹیٹو میرے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‘
شام میں سرعام پھانسی چڑھائے گئے صیہونی جاسوس کی چیزیں 60 سال بعد اسرائیل کو واپس مل گئیں
پہلگام حملے کے بعد وادی میں بھارتی سکیورٹی فورسز کا سخت محاصرہ ہے۔ چھاپے، گرفتاریاں، اور عوامی جگہوں پر نگرانی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جسم پر کوئی بھی علامت چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی انہیں مشکوک بنا سکتی ہے۔
شوپیاں کے رئیس وانی جن کے بازو پر حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کا نام درج ہے کہتے ہیں، ’چیک پوائنٹس پر لوگ میری طرف عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، دوست بھی سوال کرنے لگے ہیں۔ ایک ٹیٹو میری سوچ کی نمائندگی کرتا تھا مگر اب یہ میرے لیے خطرہ بن چکا ہے۔‘
کئی نوجوانوں نے ٹیٹوز کو مذہبی لحاظ سے بھی نامناسب قرار دیا۔ 24 سالہ فہیم نے قرآن کی آیت اپنی کمر پر گدوا رکھی تھی مگر بعد میں شرمندگی اور احساسِ جرم نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اسے ہٹوا دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نماز پڑھتے وقت دل بوجھل ہوتا تھا۔‘
پاکستان سے تعلقات کے الزام میں ایک اور بھارتی شہری گرفتار
اسی طرح ملازمت کے خواہشمند نوجوانوں کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔ پلوامہ کے طالب نے بتایا کہ ان کے AK-47 کے ساتھ قرآن کی آیت والے ٹیٹو نے ان کی سرکاری نوکری کی راہ میں رکاوٹ بنائی۔
بارہمولہ کے عرفان یعقوب جنہوں نے ایک حریت پسند کا نام بازو پر لکھوایا تھا، کہتے ہیں کہ ’یہ بہادری کا نشان تھا لیکن اب میں ایک باپ ہوں، شوہر ہوں، ملازم ہوں۔ میں اپنے بچوں کے لیے محفوظ زندگی چاہتا ہوں۔‘
سرینگر میں کئی ٹیٹو آرٹسٹس اب ٹیٹو بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں ہٹانے کی خدمات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ معروف ٹیٹو آرٹسٹ مبشر بشیر کے مطابق، ’پہلے نوجوان AK-47، آزادی، یا مذہبی اقوال کے ٹیٹو بنواتے تھے مگر اب وہی لوگ انہی نشانات کو مٹانے آ رہے ہیں۔ خوف حقیقی بنتا جا رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ 2019 کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد ٹیٹو ریموول کروا چکے ہیں۔
جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار ملک کے سفارتی تعلقات خراب کرنے پر تُل گئی
سمیر وانی، جن کا ”آزادی“ ٹیٹو اب صرف ایک ہلکے سے داغ کی صورت میں باقی ہے کہتے ہیں کہ ’میں وہ شخص نہیں رہا جو 18 سال کی عمر میں تھا۔ میں اب پیچھے نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں صرف ایک پُر امن، آزاد اور محفوظ زندگی چاہتا ہوں بغیر کسی خوف کے سائے کے۔‘
Aaj English
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔