Aaj News

بھارت کی جنگی مہم جوئی پر برطانوی پارلیمنٹ کی تحقیقی چوٹ: مسئلہ کشمیر ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ قرار

رپورٹ میں پہلگام واقعے سے لے کر سیزفائر تک کے تمام مراحل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا گیا ہے
شائع 18 مئ 2025 08:51am

برطانوی پارلیمنٹ نے پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں بھارت کے جارحانہ رویے کو بے نقاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ بیالیس صفحات پر مشتمل اس تفصیلی رپورٹ میں پہلگام واقعے سے لے کر سیزفائر تک کے تمام مراحل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا گیا ہے، جس میں بھارت کی جانب سے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب کیے گئے حملوں کو کشیدگی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

بھارت نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ایک مشکوک واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا، تاہم عالمی برادری کی مداخلت سے 10 مئی 2025 کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ 6 مئی سے 10 مئی کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان شدید فائرنگ اور میزائل حملوں کا تبادلہ ہوا، جس کا آغاز بھارت کی جانب سے یکطرفہ حملوں سے ہوا۔

پاکستان کا بھارتی پروپیگنڈے کیخلاف سفارتی مہم کا اعلان، بلاول بھٹو وفد کی قیادت کریں گے

یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ بھارت نے حسب روایت بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا الزام پاکستان پر ڈال دیا اور پاکستانی علاقوں میں فوجی حملے شروع کر دیے۔ پاکستان نے فوری طور پر اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور ایک غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا، جسے بھارت نے مسترد کر دیا۔

بھارت کی جانب سے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ پاکستانی علاقوں پر حملے کیے گئے، جنہیں ”دہشت گردی کے خلاف کارروائی“ قرار دیا گیا، مگر درحقیقت ان حملوں کا نشانہ عام شہری اور پاکستانی فوجی تنصیبات تھیں۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیتے ہوئے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے اور دشمن کو واضح پیغام دے دیا کہ ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

بھارت نے اس صورتحال کو مزید بگاڑنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تجارت معطل کی، سرحد بند کی، اور سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی دھمکی دی۔ پاکستان نے بھی اسی طرح کے جوابی اقدامات کیے، اور 1971 کے شملہ معاہدے کو بھی معطل کرنے کا عندیہ دیا، جس سے بھارت کے امن کے دعووں کا پول کھل گیا۔ا۔

برطانوی رپورٹ میں اس تمام تر صورتحال کو نہ صرف بھارت کی جانب سے طاقت کے استعمال کی ایک اور کوشش قرار دیا گیا ہے بلکہ واضح انداز میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کا طرز عمل علاقائی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کے ردعمل کا تقابلی جائزہ بھی شامل ہے، جس کے مطابق پاکستان نے انتہائی ذمہ داری، ضبط اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا دفاع کیا جبکہ بھارت کی جانب سے طاقت، دھمکی اور الزام تراشی کا سہارا لیا گیا۔

رپورٹ میں بھارت کی ہٹ دھرمی پر بھی تنقید کی گئی ہے، جس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو آج تک حل نہیں ہونے دیا۔ مزید یہ کہ بھارت نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی ثالثی کی کوششوں کو بھی پسِ پشت ڈالا اور یکطرفہ طور پر حملے کر کے خطے کو ایک سنگین جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے پہلگام حملے کو بنیاد بنا کر یکطرفہ طور پر جنگی ماحول پیدا کرنا دراصل کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کا ایک پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ بھارت نہ تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتا ہے اور نہ ہی کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت دینے کے لیے تیار ہے۔

ٹرمپ کا پاک بھارت کشیدگی پر انکشاف – ’دونوں جوہری طاقتیں غصے اور ٹٹ فار ٹیٹ کی پوزیشن پر تھیں‘

یاد رہے کہ 1947 میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، جس پر بھارت نے زبردستی قبضہ کیا۔ اقوام متحدہ نے 1948 میں کشمیریوں کو حقِ رائے دہی دینے کی قرارداد منظور کی، لیکن بھارت آج تک اس سے بھاگتا رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ہمیشہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ثالثی کا حامی رہا ہے۔

اس حالیہ کشیدگی کے دوران نہ صرف لائن آف کنٹرول پر بلکہ دونوں ممالک کی سرزمین پر باقاعدہ فضائی و زمینی کارروائیاں ہوئیں، جن میں معصوم شہری بھی شہید ہوئے۔ جنگ بندی تو 10 مئی کو عمل میں آئی، لیکن خطے میں تناؤ اب بھی برقرار ہے۔ دونوں ممالک نے اب تک تجارتی روابط اور اہم معاہدے بحال نہیں کیے۔

برطانوی پارلیمنٹ کی رپورٹ کے مطابق عالمی برادری، بالخصوص امریکہ اور برطانیہ، نے اس بحران میں سستی کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ امریکہ نے جنگ بندی کے لیے پس پردہ کوششیں کیں، مگر بھارت نے اس میں بھی اپنی ہٹ دھرمی دکھائی اور کسی بین الاقوامی کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

رپورٹ میں ماہرین نے خبردار کیا کہ بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی اور خطے میں طاقت کے ذریعے غلبہ پانے کی کوششیں جنوبی ایشیا کو ایک خطرناک نیوکلیئر محاذ کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اگر عالمی برادری نے بھارتی جارحیت کا سختی سے نوٹس نہ لیا، تو آئندہ ایسی مہم جوئیاں بڑے پیمانے پر تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔

رپورٹ میں تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ اس حالیہ تنازع کی بنیادی وجوہات — یعنی بھارت کا یہ مؤقف کہ پاکستان خطے میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتا ہے، اور پاکستان کا یہ مؤقف کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی کارروائیاں ہی بدامنی کا اصل سبب ہیں — جنگ بندی کے باوجود برقرار ہیں اور ان کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکا۔ نہ ہی دونوں ممالک کشمیر کی خودمختاری یا اس کے مستقبل کے بارے میں کسی متفقہ نتیجے کے قریب پہنچے ہیں۔

ٹرمپ کا پاک بھارت کشیدگی پر نیا بیان متنازع بن گیا: ”این ورڈ“ سے کیا مراد ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا کہ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر یہ تنازعہ ماضی کے تنازعات کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے شدت اختیار کر گیا، جو کہ تشویشناک امر ہے، خصوصاً اس لیے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت چاہتا ہے کہ کشمیر پر ہونے والی کوئی بھی بات چیت صرف دو طرفہ ہو اور کسی بھی بین الاقوامی ثالثی کو شامل نہ کیا جائے۔ اس کی توجہ دہشت گردی کے مسئلے اور ان پاکستانی علاقوں کی حیثیت پر مرکوز ہے، جس پر وہ خود حاکمیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان بین الاقوامی ثالثی کا خیرمقدم کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظالمانہ قبضے اور انتظام پر توجہ دے۔

Kashmir issue

British Parliament

Pakistan India Clash 2025