مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مبینہ وارث کی ’لال قلعے‘ کی ملکیت کی درخواست مسترد
بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کے روز مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مبینہ وارث سلطانہ بیگم کی جانب سے دائر درخواست مسترد کر دی ہے، جس میں انہوں نے دہلی کے تاریخی لال قلعے کی ملکیت اور اس کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار پر مشتمل بینچ نے درخواست کو ”مکمل طور پر بے بنیاد“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’صرف لال قلعہ ہی کیوں؟ فتح پور سکھری کیوں نہیں؟ باقی سب جگہیں کیوں چھوڑ دیں؟ یہ رِٹ مکمل طور پر بے بنیاد ہے، مسترد کی جاتی ہے۔‘
پورے بھارت کو پاکستانی بموں کا خوف لاحق، تمام ریاستوں میں بلیک آؤٹ کی مشقوں کا حکم
درخواست گزار سلطانہ بیگم کا دعویٰ تھا کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے پوتے کی بیوہ ہیں، اور ان کی خاندانی ملکیت لال قلعہ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے چھین لی تھی۔ ان کے مطابق آج بھی لال قلعہ حکومت ہند کے ”غیر قانونی قبضے“ میں ہے، اور انہیں یا ان کے خاندان کو اس پر ملکیتی حق یا اس قبضے کے بدلے معاوضہ دیا جانا چاہیے۔
عدالت میں سلطانہ بیگم کے وکیل نے یہ مؤقف اپنایا کہ دہلی ہائی کورٹ نے ان کی درخواست صرف تاخیر کی بنیاد پر مسترد کی تھی، نہ کہ مواد کی بنیاد پر۔ وکیل نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ اگر درخواست کو مسترد کرنا ہے تو صرف تاخیر کی بنیاد پر کریں، مگر سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ’نہیں، یہ درخواست میرٹ پر مسترد کی جاتی ہے۔‘
بھارت میں 45 سال سے مقیم 60 سالہ مبینہ پاکستانی خاتون گرفتار
یہ درخواست سب سے پہلے دسمبر 2021 میں دہلی ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی، جسے 164 سال کی تاخیر کی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا تھا۔ پھر دسمبر 2024 میں سلطانہ بیگم نے فیصلے کے خلاف اپیل کی، جو ہائی کورٹ نے 900 دن کی تاخیر کی وجہ سے ناقابلِ سماعت قرار دی۔
ہائی کورٹ کے جج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، ’اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بہادر شاہ ظفر کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے غیر قانونی طور پر جائداد سے محروم کیا، تب بھی 164 سال بعد رِٹ پٹیشن کیسے قابلِ سماعت ہو سکتی ہے، جبکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ درخواست گزار کے آبا و اجداد کو اس صورتِ حال کا علم تھا؟‘
بھارت: انتہا پسند ہندو ’گوبھی‘ سے مسلمانوں کو کیوں دھمکا رہے ہیں؟
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سلطانہ بیگم کی جانب سے لال قلعے کی واپسی یا معاوضے کی امیدیں مکمل طور پر دم توڑ گئی ہیں، اور عدالت نے واضح پیغام دیا ہے کہ تاریخ کی بنیاد پر دعوے اگر بہت زیادہ تاخیر سے کیے جائیں تو ان کی قانونی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔