Aaj News

بھارت سے کشیدگی: کیا روس کے بجائے یوکرائن کے ساتھ چلنا پاکستان کے کام آیا؟

عمران خان روس کے ساتھ چلنا چاہتے تھے- اب بھارت کیخلاف یورپ پاکستان کی حمایت کر رہا ہے
اپ ڈیٹ 05 مئ 2025 04:15pm
جے شنکر اتوار 4 مئی 2025 کو ارکٹک سرکل انڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے
جے شنکر اتوار 4 مئی 2025 کو ارکٹک سرکل انڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے

فروری 2022 میں روس نے یوکرائن پر بڑا حملہ کیا تو اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان ماسکو میں موجود تھے۔ عمران خان کی صدر پوتن سے ملاقات سے کسی حد تک تاثر ابھرا کہ پاکستان یوکرائن کے خلاف روس کے ساتھ ہے۔

اس واقعے کے چند ماہ بعد ہی عمران خان حکومت کا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ ہوگیا۔ عمران خان نے عدم اعتماد کی ذمہ داری اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ عدم اعتماد کو روک سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

الزامات کے دوران ہی عمران خان نے فروری 2023 میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ جنرل باجوہ نے انہیں یوکرائن پر روسی حملے کی مذمت کے لیے کہا تھا۔

عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کا بیانیہ تھا کہ عمران خان کی حکومت ماسکو کے ساتھ کھڑے ہو کر سستے تیل جیسے فوائد حاصل کر سکتی تھی جب کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مبینہ طور پر مغرب کے کہنے پر یوکرائن کا یوں ساتھ دیا کہ پاکستانی فیکٹریوں کے تیار کردہ 155 ملی میٹر کے گولے یوکرائن کو فراہم کیے گئے۔

پاکستان نے کبھی سرکاری طور پر یوکرائن کو 155 ملی میٹر کے گولے فراہم کرنے کی تصدیق نہیں کی لیکن بھارتی میڈیا نے اس وقت بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا کہ پاکستان یوکرائن کو یہ شیل فراہم کر رہا ہے۔

2023 میں جو بیانیے سامنے آرہے تھے ان سے تاثر دیا گیا کہ عمران خان کی حکومت ایک آزادنہ خارجہ پالیسی چلانا چاہتی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا اور مغرب کی جانب جھک گئی۔ ’

تاہم اس وقت کی ’اسٹیبلشمنٹ‘ کی اس مبینہ ’غلطی‘ کے ثمرات اب ظاہر ہوئے ہیں اور اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کو یوکرائن کا ساتھ دینے کے مبینہ فیصلے سے کافی فائدہ ہوا ہے۔

پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا ماحول بنایا اور عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی۔

لیکن اتوار کو بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر یورپی یونین پر پھٹ پڑے اور ان کے بیان سے واضح ہوگیا کہ بھارت کو مغرب کی حمایت نہیں ملی۔

ارکٹک سرکل انڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے جے شنکر کا کہنا تھا کہ ”جب ہم دنیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پارٹنرز(شراکت داروں) کی تلاش ہوتی ہے، پریچرز(مبلغوں) کی نہیں۔ خاص طور پر اُن مبلغوں کی جو اپنے ملک میں وہ عمل نہیں کرتے جس کی تبلیغ وہ بیرونِ ملک کرتے ہیں۔ یورپ کے کچھ حصے اب بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ یورپ اب ایک حقیقت پسندی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ وہ اس سے کیسے نمٹتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ اگر ہمیں شراکت داری قائم کرنی ہے تو اس کے لیے باہمی سمجھ، حساسیت، مفادات کی یکسانیت، اور اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ دنیا دراصل کیسے چلتی ہے۔“

جے شنکر کے بیان کا لب و لبان یہ تھا کہ جب بھارت نے پاکستان کے خلاف یورپ سے حمایت مانگی تو اسے بدلے میں نصیحت ملی۔

بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان پر بھارت کے اندر بحث چل پڑی ہے۔ کچھ تجزیہ نگار کہہ رہے کہ جب یوکرائن پر حملہ ہوا تو یہی جے شنکر بھارت کے اپنے مفادات کی بات کر رہے تھے، اس وقت بھارت نے یوکرائن کا ساتھ نہیں دیا جسے یورپی یونین کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے بجائے بھارت نے روس سے سستے داموں تیل خریدا اور اس طرح روسی معیشت کو فائدہ پہنچایا۔ یاد رہے کہ یوکرائن پر حملے کے بعد مغرب نے روسی تیل اور گیس کی برآمدات پر پابندیاں لگائی تھیں۔

ان بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق یورپی یونین اب پاک بھارت کشیدگی میں اپنا مفاد دیکھ رہی ہے اور وہ بھارت کی حمایت کیوں کرے گی۔

یورپی یونین کی جانب سے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان کی کھلی حمایت کئی جگہ دکھائی دی ہے۔ بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت بری طرح ناکام ہوا ہے۔ بھارت سلامتی کونسل سے پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کرانا چاہتا تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا۔

اس کے بعد سلامتی کونسل کے موجودہ صدر ملک یونان نے پاک بھارت کشیدگی پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے پاکستان سے تعاون کیا ہے۔ پاکستان کی درخواست پر سلامتی کونسل کا یہ بند کمرہ اجلاس آج پیر کو ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس بلایا جانا ہی بھارت کے لیے ایک بڑا سفارتی دھچکا ہے۔

ماضی میں پاکستان کے خلاف بھارت کی ہر سفارتی جارحیت میں بڑے پیمانے پر دوسرے ممالک سے رابطہ کرنا تھا۔ لیکن اس مرتبہ وہ ناکام رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے یوکرائن جیسے معاملے پر امریکہ اور یورپ کا مبینہ ساتھ دینے کے باوجود ایک روس اور چین سے متوازن تعلقات بھی رکھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اتوار کے روز پاکستانی وزیر خارجہ سے فون پر گفتگو کی اور کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔

اس سے پہلے روسی وزیر خارجہ نے بھارتی ہم منصب جے شنکر کو فون کیا۔ اس حوالے سے روسی وزیر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ نے زور دیا ہے نئی دہلی اور اسلام آباد اپنے اختلافات سیاسی اور سفارتی طریقے سے دو طرفہ بنیادوں پر حل کریں۔

چین سے قریبی تعلقات کی بدولت پاکستان کو بیجنگ کی تکنیکی اور عسکری مدد بھی حاصل ہے۔ ایک طرف چین نے پاکستان کو رافیل کا مقابلہ کرنے کیلئے جے ٹین سی طیارے اور پی ایل 15 میزائل فراہم کیے تو دوسری جانب بھارتی سوشل میڈیا پر چیخ وپکار مچی ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو چین لداخ سے بھارت پر حملہ کردے گا۔

India Pakistan Tension