پاکستان اور بھارت کے درمیان اہم معاہدے کونسے ہیں؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں جانب سے معاہدوں کی معطلی کے اعلانات کئے جاچکے ہیں۔ ان اعلانات کا اثر جاننے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ جانا جائے کہ دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدے کونسے ہیں۔
نہرو-لیاقت معاہدہ (1950)
پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلا معاہدہ 1950 میں طے پایا، جس میں دونوں ممالک نے اپنے اقلیتی شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ یہ معاہدہ خاص طور پر تقسیم کے بعد ہندو، مسلم اور سکھ اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کی کوشش کے طور پر سامنے آیا۔ اس میں اقلیتوں کو برابر حقوق دینے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔
بھارتی طیارے راستے میں بار بار اترنے پر مجبور، ایئرلائن کے شیئر گر گئے، پروازیں منسوخ
سندھ طاس معاہدہ (1960)
پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم معاہدہ سندھ طاس معاہدہ ہے، جو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کے استعمال پر مبنی ہے۔ اس معاہدے نے پاکستان کو تین دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر اختیار دیا، جبکہ بھارت کو تین دیگر دریا (راوی، بیاس، ستلج) کا پانی استعمال کرنے کا حق دیا گیا۔ اس معاہدے کی کامیابی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دونوں ممالک اہم مسائل پر بات چیت کے ذریعے حل تلاش کرنے کے خواہشمند تھے۔
شملہ معاہدہ (1972)
پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ایک اور سنگ میل تھا، جو 1971 کی جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے میں کہا گیا کہ دونوں ممالک اپنے تنازعات کو امن کے ذریعے حل کریں گے، اور کشمیر جیسے حساس مسائل پر دونوں ملکوں نے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے 2019 میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جب اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا، جو پاکستان کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔
’80 گھنٹوں میں 3 میٹنگز‘: اپنا سپاہی چھڑانے کیلئے بھارتی فوج منت سماجت پر اتر آئی
مذہبی مقامات پر زیارت کا پروٹوکول (1974)
پاکستان اور بھارت کے درمیان مذہبی معاملات کے حوالے سے 1974 میں ایک پروٹوکول طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک کے شہریوں کو ایک دوسرے کے مقدس مقامات کی زیارت کی اجازت دی گئی۔ پاکستان میں گوردوارہ ننکانہ صاحب اور بھارت میں اجمیر شریف کی زیارت کے لیے اس پروٹوکول کے تحت پاکستانی اور بھارتی یاتریوں کو سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
نیوکلئیر تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ (1988)
جوہری ہتھیاروں سے متعلق سب سے اہم معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1988 میں طے پایا۔ اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات اور سہولتوں کی فہرست ہر سال یکم جنوری کو فراہم کرنا ضروری تھا، اور انہیں ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا تھا۔
فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی روک تھام پر معاہدہ (1991)
پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کو کم کرنے کے لیے 1991 میں ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے فوجی طیارے ایک دوسرے کی فضائی حدود سے 10 کلومیٹر دور رہیں گے تاکہ کسی بھی حادثے سے بچا جا سکے۔
اعلان لاہور (1999)
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1999 میں لاہور میں ایک اعلامیہ طے پایا جس میں دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے اور تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا کہ جوہری اور روایتی مسائل پر اعتماد بڑھانے کے لیے باقاعدہ بات چیت کی جائے گی۔
ایل او سی سیز فائر معاہدہ (2003)
پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائر بندی کا معاہدہ 2003 میں طے پایا تھا، جس میں دونوں ممالک نے فائرنگ اور سرحدی خلاف ورزیوں سے بچنے کی کوشش کی۔ تاہم، یہ معاہدہ متعدد بار خلاف ورزیوں کا شکار ہوا، خاص طور پر 2014 کے بعد جب نریندر مودی کی حکومت آئی۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرات کو کم کرنے کا معاہدہ (2007)
2007 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ایک اور معاہدہ طے پایا جس میں دونوں ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت بہتر بنانے کا وعدہ کیا اور جوہری حادثات کی صورت میں ایک دوسرے کو فوراً اطلاع دینے کا فیصلہ کیا۔
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کا پہلا اہم بیان، پاک بھارت تعلقات سے نابلد نکلے
پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد معاہدوں کی تاریخ ہے جو مختلف مسائل پر بات چیت اور حل کی تلاش کے لیے طے پائے ہیں۔ حالیہ کشیدگی اور پاکستان اور بھارت کے جانب سے شملہ معاہدے سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد یہ معاہدے ایک نئی نظر سے دیکھے جانے کی ضرورت رکھتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان اس وقت جو بھی صورتحال ہو، ان معاہدوں کی اہمیت اب بھی برقرار ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں استحکام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
Aaj English















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔