’سیٹھ کھلا رہا ہے، تمہیں کیا؟‘ علی شیخانی کا ناقدین کو جواب
رمضان المبارک کا مہینہ نہ صرف روحانی بالیدگی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ موقع ہے خود احتسابی اور حسنِ اخلاق کی ترویج کا۔ آج نیوز کی اسپیشل سحری ٹرانسمیشن میں روزانہ ہی معاشرتی بہتری اور حسنِ اخلاق پر گفتگو کی جاتی ہے، اور آج جس موضوع پر بات کی گئی وہ ہے ”اخلاق“، جو کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے، جو امن، سکون، عزت، حرمت، اور توازن کو فروغ دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی بے شمار احادیث میں اخلاق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، اور یہ وہ بنیادی وصف ہے جس سے ایک فرد اور معاشرہ نکھرتا ہے۔
اخلاق اور معیارِِ زندگی، علی شیخانی کا منفرد نظریہ
پروگرام کے دوران میزبان شہریار عاصم نے آج کے معزز مہمان، علی شیخانی، سے کھانے کے معیار اور کوالٹی پر گفتگو کی۔
علی شیخانی، جو نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ میں بھی اعلیٰ معیار کی افطاری اور کھانے فراہم کرتے ہیں، نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ابھی یہاں آتے ہوئے راستے میں کیمرہ آن کرکے مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنا اچھا کھانا کیوں کھلا رہے ہیں؟ تو میں نے ہنستے ہوئے وہی جواب دیا جو ظفر عباس صاحب اور ہمارے نیشنل ٹرینڈ کا حصہ ہے کہ سیٹھ کھلا رہا ہے، تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘
یہ جملہ سننے کے بعد سوال کرنے والے نے حیران ہوکر پوچھا، ’سیٹھ آپ ہیں؟‘
جس پر علی شیخانی نے جواب دیا: ’ہاں! اور جو میرے بچے کھا رہے ہیں، وہی سب کو کھلا رہا ہوں۔‘
یہی وہ سوچ ہے جو ایک صحت مند اور مہذب معاشرے کی بنیاد بنتی ہے۔
طبقاتی تفریق کے خلاف ایک مضبوط پیغام
علی شیخانی نے اپنے خیالات کا مزید اظہار کرتے ہوئے کہا، ’یہ کہاں لکھا ہے کہ آپ خود تو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جا کر کھائیں اور لوئر مڈل کلاس طبقے، جن کی آمدنی کم ہے، انہیں صرف دال چاول کھلائیں؟ میں تو کہتا ہوں کہ سب کو وہی کھلائیں جو آپ خود کھاتے ہیں۔‘
یہ الفاظ صرف ایک سوچ نہیں، بلکہ ایک عملی فلسفہ ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کی سب سے بڑی وجہ وسائل کی غیر مساوی تقسیم اور سوچ کی محدودیت ہے۔ اگر ہم اخلاقیات اور خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنا لیں تو ہم نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
حسنِ سلوک – ایک سماجی سرمایہ
اخلاقیات کا دائرہ صرف کھانے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہماری روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں جھلکتا ہے۔ حسنِ سلوک، دوسروں کی عزت، نرم لہجہ، اور خلوص نیت وہ عناصر ہیں جو ایک معاشرے کو خوبصورت بناتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔“ (بخاری، مسلم)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ دولت، حیثیت، یا علم سے زیادہ اخلاق کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ اگر ہم اخلاقیات کو اپنی زندگی میں اپنالیں، تو یقیناً ہمارا معاشرہ ایک بہتر اور خوشحال جگہ بن سکتا ہے۔
اخلاق ایک ایسی روشنی ہے جو اندھیروں میں امید کی کرن بن کر چمکتی ہے۔ رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں، جہاں ہمیں صبر اور قربانی کی تعلیم دی جاتی ہے، وہیں ہمیں اپنی عادات اور رویوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ علی شیخانی جیسے لوگ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ اصل خوشی دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے میں ہے، اور حقیقی اخلاق وہی ہے جو دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔