شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں تو پھر ’میرے منہ نہ لگنا، میرا روزہ ہے‘ کا کیا مطلب؟
رمضان المبارک ایک ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، تراویح کا اہتمام کرتے ہیں، اور ہر طرف ایک خاص روحانی ماحول محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایسے مناظر بھی نظر آتے ہیں جو رمضان کی برکتوں اور اس کے روحانی پیغام سے متصادم لگتے ہیں۔
آج نیوز کی خصوصری رمضان ٹرانسمیشن کے دوران میزبان شہریار عاصم نے مفتی محسن الزماں سے اسی حوالے سے سوال کیا کہ اگر شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں تو پھر رمضان میں بھی وہی رویے کیوں نظر آتے ہیں جو عام دنوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں؟ جیسے منافع خوری، روزے کے دوران غصہ اور جھگڑے، سڑکوں پر لوگوں کا آپس میں تلخ کلامی کرنا اور یہ کہنا کہ ’میرے منہ نہ لگنا، میرا روزہ ہے‘۔ یہ سب رویے دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شیطان بند ہے تو پھر یہ سب کہاں سے آ رہا ہے؟
مفتی محسن الزماں نے اس پر وضاحت کی کہ شیطان تو واقعی قید کر دیا جاتا ہے، لیکن انسان کے اندر جو نفس موجود ہے، وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اگر کسی انسان کا نفس اس پر حاوی ہے اور وہ گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے، تو چاہے کتنا ہی مبارک مہینہ آجائے، اس کا نفس اسے اسی سمت لے جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ رمضان ہمیں صبر اور تقویٰ کا درس دیتا ہے، لیکن اگر کوئی نفس کے بہکاوے میں آجائے اور اس پر قابو نہ رکھے، تو وہ ان برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے ہی نفس کی پیروی میں لگا رہتا ہے۔
مفتی محسن الزماں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ رمضان میں بھی بعض لوگ نرمی اور برداشت کے بجائے غصہ، بےصبری اور منفی رویے اختیار کر لیتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ اپنے نفس کو قابو میں رکھنا، برے خیالات اور برے اعمال سے بچنا، اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، وہ رمضان کی اصل روح کو نہیں پا سکتے اور اپنی بداعمالیوں کو شیطان کے کھاتے میں ڈال کر اپنے اندر کے نفس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔