26ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، تب تک معاملات اس کے تحت ہی چلیں گے، جسٹس محمد علی مظہر
سپریم کورٹ میں زیر سماعت بنچز کے اختیارات کیس میں جسٹس محمد علی مظہر کا بیش صفحات پرمشتمل نوٹ جاری کردیا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بنچ لے سکتا ہے، کسی ریگولر بنچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ آئینی بنچ نے درست طور پر دو رکنی بنچ کے حکم نامے واپس لئے۔
نوٹ میں لکھا گیا کہ 26ویں ترمیم اس وقت آئین کا حصہ ہے، ترمیم میں سب کچھ کھلی کتاب کی طرح واضح ہے، ہم اس ترمیم پر آنکھیں اور کان بند نہیں کر سکتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ یہ درست ہے کہ ترمیم چیلنج ہو چکی اور فریقین کو نوٹس بھی جاری ہوچکے، کیس فل کورٹ میں بھیجنے کی درخواست کا میرٹس پر فیصلہ ہو گا، 26ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، جب تک ایسا ہو نہیں جاتا، معاملات اس ترمیم کے تحت ہی چلیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید لکھا کہ آئینی تشریح کم از کم پانچ رکنی آئینی بنچ ہی کرسکتا ہے، کسی ریگولر بنچ کو وہ نہیں کرنا چاہئے جو اختیار موجودہ آئین اسے نہیں دیتا، دو رکنی بنچ کے ٹیکس کیس میں بنیادی حکم نامے واپس ہو چکے، بنیادی حکم ناموں کے بعد کی ساری کارروائی بے وقعت ہے۔
خیال رہے کہ آئینی بنچ نے جسٹس منصور اور جسٹس عقیل عباسی کے حکم نامے واپس لیے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے آئینی بنچ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے نوٹ جاری کیا۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔