Aaj News

پاکستانی میڈیا میں سنسر شپ کے حوالے سے اہم انکشافات

سنسر شپ کے حوالے سے میڈیا انڈسٹری سے سامنے آنے والی تین آراء کونسی ہیں؟
اپ ڈیٹ 28 جنوری 2025 04:35pm
Human Rights Report: Journalism Under Siege! Is Jail for Fake News Justified?- Aaj News

پاکستان کی نامور صحافی اور محقق ماہم مہر پاکستان میں میڈیا پر جاری سنسر شپ کے حوالے سے کچھ انکشافات کئے ہیں۔

صحافی ماہِم مہر نے پیر کو آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی رپورٹ ”ہارش سینٹنسز: 2022-2024 میں آزادی اظہار کا حال“ سے متعلق سوالات کا جواب دیا۔

یہ رپورٹ ماہِم مہر نے مختلف ملکی صحافیوں سے انٹرویو کے بعد تیار کی تھی۔ 30 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں 2022 میں وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد آزادی اظہار کی حالت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

رپورٹ میں میڈیا کے منظرنامے میں ابھرتے ہوئے تنازعات اور مشکوک تعاون کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں کچھ میڈیا اداروں پر پابندیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جبکہ دیگر ادارے بغیر کسی نگرانی کے کام کر رہے ہیں۔

ماہم مہر نے بتایا کہ کچھ صحافیوں نے بتایا کہ صحافت میں ان کا کردار کچھ محدود ہوا ہے، ان میں زیادہ تر وہ صحافی ہیں جو ارشد شریف کے قریب تھے، ان لوگوں کیلئے صحافت میں تنگی ہوئی ہے۔

ماہم مہر نے ڈان نیوز سے وابستہ صحافی عارفہ نور کے حوالے سے بتایا کہ ان کا کہنا تھا سینسر شپ ہمیشہ سے ہی رہی ہے۔

ماہم مہر کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو وہ سامنے آجاتا ہے لیکن قبائلی علاقے میں بیٹھے کسی صحافی کے ساتھ کچھ ہوتو اس پر اتنی آواز بلند نہیں ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ جن صحافیوں سے میں نے بات کی اس میں سنسر شپ کے حوالے سے تین رائے سامنے آئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ صحافیوں کیلئے میدان محدود ہوگیا ہے، دوسری یہ کہ ہمیشہ سے ہی سنسر شپ رہی ہے جبکہ کچھ نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نیوز روم میں خود ساختہ سنسر شپ میں اضافہ ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ میڈیا گروپس نے بہت زیادہ مصیبتیں جھیلی ہیں، انہوں نے ایک قیمت ادا کی ہے‘۔

ماہم مہر کے مطابق ’ایک میٹنگ ہوئی تھی، جس پر اعزاز سید اور دیگر صحافیوں نے رپورٹنگ بھی کی تھی، اس میٹنگ میں میڈیا مالکان کو بلایا گیا اور ان کو بہت کلئیرلی (صاف انداز میں) کہا گیا کہ آپ عمران خان کا فیس (چہرہ) نہیں دکھائیں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سنسر شپ سے پورا چینل اور اس کا اسٹاف مالی طور پر مصیبت میں پڑ جاتا ہے، ’تو جو مالکان ہیں وہ اس صورت حال سے بچنا تو چاہتے ہوں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے اورنوجوان صحافیوں کیلئے نیوز روم میں کنفیوزنگ ہوتا ہے کہ ریڈ لائن کدھر ہے، ہم کیا رپورٹ کر سکتے ہیں کیا رپورٹ نہیں کرسکتے۔

2022 کے بعد سے رائج سنسر شپ کے نئے طریقوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا فرق یہ آیا ہے کہ میڈیا مالکان سے ہدایات جاری کرنے کیلئے براہ راست رابطہ کرنا، اس میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ جو پہلے کی سنسر شپ سے مختلف ہوا ہے وہ انٹرنیٹ فائر وال اور گاہے بگاہے بندش ہے جس کی زد میں عوام بھی آئی ہے۔

Censorship

pakistani media