فیصل آباد: پولیس حراست میں تین بھائیوں کے قتل میں پولیس کی ایک کے بعد ایک غفلت سامنے آنے لگی
فیصل آباد میں پولیس حراست میں تین بھائیوں کے قتل میں پولیس کی ایک کے بعد ایک غفلت سامنے آرہی ہے، دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ مقتول بھائیوں کو گزشتہ برس نومبر میں گرفتار کرکے گرفتاری ہی نہیں ڈالی گئی۔
پولیس کی اس کہانی کو اہلِ خانہ ماننے کو تیار نہیں کہ حوالات میں ملزمان کی حفاظت پر صرف ایک سپاہی موجود تھا۔
واقعے کی ایف آئی آر بھی پولیس مدعیت میں درج کی گئی ہے جو معاملہ مزید مشکوک بنارہی ہے۔
سندھ پولیس کے اہلکاروں کا مکانوں پر قبضے اور بے گناہ افراد کے اغوا میں ملوث ہونے کا انکشاف
ادھر بی بی سی کو ایک اہلکار نےبتایا کہ تینوں بھائیوں کو گزشتہ سال نومبر میں قتل کی واردات کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، لیکن کاغذوں میں گرفتاری ہی نہ ڈالی گئی، اب جنوری میں جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے تفتیش شروع کی گئی۔
قبال ازیں، واقعے میں پولیس کی ایک نااہلی یہ بھی سامنے آئی تھی کہ قتل کے خلاف درج مقدمہ میں ملزمان کی تعداد پانچ بتائی گئی ہے جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں آٹھ ملزمان کو فرار ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ہلاک افراد کی والدہ کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پولیس تھانے کے اندر گھس کر میرے سوتے ہوئے بیٹوں کو قتل کر کے فرار ہو جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟
مرنے والوں کی چچا زاد بہن نمرہ اعتراض اٹھایا اور کہا کہ پولیس خود کیسے اس مقدمے کی مدعی بن سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ج جنوری کو فیصل آباد کے تھانہ صدر تاندلیانوالہ کی حوالات میں تین سگے بھائیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ حملہ آور تھانے کے عقب سے سیڑھی لگا کرعمارت میں داخل ہوئے اور فائرنگ کردی۔
ملزمان کی فائرنگ سے حوالات میں بند تین بھائی بلال، عثمان اور ناصر مارے گئے، جبکہ مقتولین کا کزن آصف زخمی ہوا۔
ملزمان وارادت کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
کراچی میں شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کا گندا دھندا، سی ٹی ڈی انچارج راجہ عمر خطاب برطرف
ایس پی انوسٹی گیشن فیصل آباد اور سی آئی اے ٹیموں نے چھ مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ قتل دیرینہ دشمنی کا شاخسانہ تھا، مقتولین پر کھرل برادری کے افراد کے قتل کا الزام تھا۔
ترجمان کے مطابق مقتولین عثمان، ناصر اور آصف کو تھانہ سٹی تاندلیانوالہ پولیس نے گرفتار کیا تھا، ملزمان کو دیرینہ دشمنی کی وجہ سے محفوظ رکھنے کیلئے تاندلیانوالہ میں بند کیا گیا تھا۔
Aaj English
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔