پاکستان سپر لیگ کا تاریخی پس منظراور ۲۰۲۰
دنیا میں کرکٹ کی رنگینیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں اور کرکٹ باقاعدہ طور پر کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکی تھی لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ دشمنوں کی سازشوں کی بھینٹ چڑھی ہوئی تھی ۔ سن 2008 میں ہمارے پڑوسی ملک میں انڈین پریمیئر لیگ کے نام سے اس کرکٹ کے کاروبار کو چار چاند لگے ۔ پہلے سیزن میں پاکستانی کھلاڑیوں کو خریدا گیا اور کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس لیگ کی پاکستان کیلئے اہم بات یہ تھی کہ اس وقت کے پاکستانی آل رؤنڈر سہیل تنویر نے14 رنز دیکر6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا ریکارڈ بنایا جو ابھی تک برقرار ہے لیکن نفرت کی عالمگیر مثالیں قائم کرنے والے ملک بھارت نے اپنی ویب سائٹ پر یہ ریکارڈ تو لگا رکھا ہے لیکن دیگر کھلاڑیوں کی طرح ان کے ریکارڈ کےساتھ ان کی تصویر آویزاں نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سہیل تنویر کی بدولت ان کی ٹیم راجھستان رائل نے لیگ کے پہلے ایڈیشن میں کامیابی حاصل کی تھی۔
اگلے ہی سال یعنی 2009 میں پاکستان کے دورے پر آئی سری لنکن ٹیم پر لاہور میں مسلح افراد نے حملہ کردیاجس کے بعد سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ تاحال بحال نہیں ہوسکی ہے۔ جزوی طور پر ایک دودورے پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھرپور خرچہ کر کے کروائے لیکن کوئی خاطر خواہ راہ ہموار نہیں ہو سکی لیکن امید بننا شروع ہوئی۔
پاکستان ایک اولوالعزم قوم ہے جسے ڈرا دھمکا کے دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا ، کیونکہ ا س کاہر فرد اپنی قومی ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ دشمنوں کی بارہا کوششوں کے باوجود پاکستان پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگ سکی لیکن پاکستان کو اپنی ہوم سریز بھی متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں کھیلنی پڑی جس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کافی خسارہ برداشت کرنا پڑا۔لیکن پاکستان نے کرکٹ کو نہیں روکا اور قدرت کی کرشمہ سازیاں دیکھئے کہ پاکستان نے پھر بھی خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کیں اور بڑے نام بھی دنیائے کرکٹ کو دیے۔ پاکستان کی کارگردگی بہتر سے مزید بہتر ہوتی چلی گئی۔
یہ بھی پڑھیئے: اب وہ وقت نہیں ہے
دوسری طرف بنگلادیش اور سری لنکا نے بھی ایسی لیگ کا آغاز کرادیا۔ جنوبی افریقا ، انگلینڈ اور آسٹریلیا پہلے ہی ٹی20 لیگز کا آغاز کر چکے تھے پھر ویسٹ انڈیز میں بھی ایسی لیگ کا آغاز ہوا۔ پاکستان کی بے چینی بہت بڑھ چکی تھی پہلے قدم کیلئے ہمت اور حوصلہ درکار تھاجس کیلئے نجم سیٹھی صاحب اور ان کی ٹیم میدان عمل میں آئی ۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد یہ طے پایا کہ پاکستان سپر لیگ کی ابتداء متحدہ عرب امارات کے میدانوں سے کی جائےگی۔حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک مشکل اور دیلیرانہ قدم تھا ، جو بہت واضح طور پر بتا رہا تھا کہ ابھی نہیں کیا تو کبھی نہیں کرسکیں گے۔
میں یہ بات پورے یقین کیساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہم نے کسی کے مقابلے میں ایسا نہیں کرنا تھا یہ وقت کا تقاضہ تھا۔ ہم کرکٹ سے شدید محبت کرنے والی قوم ہیں ۔جیسے حب الوطنی ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے ایسے ہی کرکٹ بھی ہماری نسوں میں رواں دواں ہے ۔ ستمبر2015 میں پاکستان سپر لیگ کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور وہ تمام لوگ بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں جو اس وقت نجم سیٹھی صاحب کےساتھ کھڑے ہوئے اورانہوں نے ٹیمیں خریدیں ۔ یقیناًوہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے ۔ پاکستان کی دنیائے کرکٹ میں دو نامی گرامی شخصیات کو پاکستان سپر لیگ کا سفیر مقرر کیا گیا ایک رمیز راجہ اور دوسرے وسیم اکرم تھے۔
پہلے اور دوسرے پاکستان سپرلیگ میں پانچ ٹیموں نے شرکت کی جن کے نام پشاور زلمی ، اسلام آباد یونائٹڈ، لاہور قلندر، کراچی کنگزاور کوئٹہ گلیڈیٹر ہیں۔پاکستان سپر لیگ کے کامیاب انعقاد کی وجہ سے تیسرے مرحلے میں ایک نئی ٹیم ملتان سلطان کے نام سے شامل کی گئی۔ پہلا پاکستان سپر لیگ جو پہلے میچ سے آخری میچ تک متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں کھیلا گیااور یہ میلہ اسلام آباد یونائیٹڈ نے پاکستانی کپتان مصباح الاالحق کی قیادت میں اپنے نام کیا جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کوئٹہ گلیڈایٹرز کی تھی۔ایونٹ کے پہلےکامیاب سیزن کے اختتام پر اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا کہ اگلے سیزن کا فائنل مقابلہ پاکستان میں کرایا جائےگا۔ ڈر اور خوف سے نکلتے ہوئے2017 کا فائنل لاہور میں کھیلا گیا اور اس بات جیت کا سہرا پشاور زلمی نے ہر پاکستانی کو عزیز ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے ڈیرن سیمی کی قیادت میں جیتا اور دوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم پھر کوئٹہ گلیڈایٹرزتھی جس کی قیادت سرفراز احمد کر رہے تھے اور ان کی معاونت دنیائے کرکٹ کا ایک عظیم بلے باز سر ویون رچرڈکر رہے تھے ۔ اس فائنل کے زندہ دلانِ لاہور چشم دید گواہ تھے ۔
پاکستان سپرلیگ کی انتظامیہ کا عزم اور حوصلہ بڑھنا شروع ہوا۔ پاکستانیوں کی پاکستان سپر لیگ اپنے گھر میں آنے کی امیدیں بڑھنے لگیں اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب آخری تین میچز پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں منعقد کیے جائیں گے اور اللہ کے کرم سے یہ بھی ممکن ہوا۔2018 کا فائنل اسلام آباد یونائٹڈ نے دوسری بار جیتا لیکن اس بار مدِ مقابل پچھلے سال کی فاتح پشاور زلمی تھی جو اپنے کپ کا دفاع رہی تھی۔ یہ فائنل روشنیوں کے شہر کراچی میں منعقد ہوا ۔ اس کے بعد بات نے اور آگے بڑھنا تھا پاکستانیوں کی طویل انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کے قریب پہنچ چکی تھیں پاکستانی کرکٹ میدانوں کیویرانیاں 2019 میں دور ہونے لگیں تھیں۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستان کے ازلی دشمن کو ہماری خوشیاں کہاں ہضم ہوتی ہیں حالات انتہائی کشیدہ کردئیے گئےاورایک بار پھر پاکستان آرمی اور کرکٹ بورڈ اپنے جذبے اور بہترین انتظامی امور کے سبب اس بات کو یقینی بنایا کہ مقابلے پاکستان میں ہی ہوں گے۔ہاں فرق اتنا پڑا کہ پہلے کراچی اور لاہور میں ہونے تھے پھر صرف سارے مقابلے کراچی میں ہی منعقد کرنے پڑے۔میچ کراچی میں ہوئے اور ہر کراچی والے کی خواہش تھی کہ وہ ملک میں واپس آنے والی بین الاقوامی کرکٹ کا عینی شاہد بنے اور تاریخ کا حصہ بنے۔ گزشتہ دو سیزن کے میچز میں بین الاقوامی کھلاڑی اپنی اپنی ٹیموں کے ہمراہ پاکستان نہیں آتے تھے۔ کوئٹہ کے ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی رہی اب کی بار 2019میں سوائے چند ایک کے، تمام کھلاڑی پاکستان آئے اور اس بار کوئٹہ نے یہ تاریخی معرکہ سر کرلیادوسرے نمبر پر رہنے والی ٹیم ڈیئرن سیمی کی پشاور زلمی تھی۔
پاکستان سپرلیگ نے بہت کم عرصے میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑدئیے ہیں اور پاکستانی خصوصی طور ویسٹ انڈیز ، جنوبی افریقا اور برطانیہ کے کھلاڑیوں کے بہت شکر گزار ہیں کہ انہوں نے پاکستان آکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان بھی ان کے جیسا ہی ملک ہے بس وہ خوش قسمت ہیں کہ انکا پڑوسی بھارت نہیں ہے۔اعلیٰ حکام نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ انشاء اللہ اگلا سیزن پاکستان کے مختلف شہروں میں کھیلا جائے گا۔
پاکستان ایک امن پسند ملک تھا ، ہے اور رہےگا۔ تمام پاکستانی نجم سیٹھی اور ان کی ٹیم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس برے وقت میں جو ہم پر مسلط کیا گیا تھا پاکستان سپر لیگ کی بنیاد ڈالی اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان نے کس طرح سے اپنے دشمن کو جسے بھرپور جواب دینے جواز بھی موجود تھا امن کا پیغام دیا ہے۔ بہت جلد دنیا دیکھ لے گی کہ پاکستان سپر لیگ دنیا میں کھیلی جانے تمام لیگز میں سب سے مشہور اور کامیاب لیگ ہے۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔