وزن کم کرنے والے انجیکشنز دماغ کی پروگرامنگ تبدیل کرنے لگے
گزشتہ چند برسوں میں موٹاپے کے علاج کے حوالے سے مختلف وزن کم کرنے والے انجیکشنز نے عالمی سطح پر کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔
ان میں سے اوزیمپک، ویگووی اور مونجارو جیسے انجیکشنز نہ صرف کھانے کی مقدار کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، بلکہ یہ دماغ کے مخصوص سرکٹس پر بھی اثر ڈالتے ہیں جو متلی، پیاس اور کھانے کی شدید خواہش سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ انجیکشنز دماغی سطح پر تبدیلیاں لا کر کھانے کی عادتوں اور غذائی ترجیحات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کافی میں گھی، ہلدی اور دارچینی: دل کے ڈاکٹر کا حیران کن نسخہ
حال ہی میں نیورو سائنس سوسائٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق نے ان انجیکشنز کے اثرات کو مزید واضح کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق، یہ دوائیں دماغ کے ”قے کے مرکز“ کو ہدف بناتی ہیں، جس کے نتیجے میں متلی کے ساتھ ساتھ وزن میں کمی بھی واضح طور پر دیکھی گئی ہے۔
سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب بھوک کے مرکز کو ہدف بنایا جاتا ہے تو متلی نہیں ہوتی، لیکن وزن میں کمی بھی نہیں آتی، جو کہ ایک مشکل توازن پیدا کرتا ہے۔ یعنی، ان انجیکشنز کے اثرات مختلف دماغی حصوں میں مختلف انداز سے ظاہر ہوتے ہیں، جس سے ان کی افادیت اور ضمنی اثرات کے درمیان توازن قائم کرنا چیلنج بنتا ہے۔
چوہوں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تیرزیپیٹائڈ دوا کو آکسیٹوسن ہارمون کے ساتھ ملا کر استعمال کیا گیا، تو اس کے نتیجے میں چربی کے نقصان میں دوگنا اضافہ ہوا اور یہ سب کچھ بغیر متلی کے ہوا۔ اس تحقیق نے محققین کے لیے ایک اہم قدم ثابت کیا ہے، کیونکہ یہ دریافت اس بات کا امکان فراہم کرتی ہے۔
ایک اور تحقیق نے یہ بھی معلوم کیا کہ یہ وزن کم کرنے والی دوائیں فاسٹ فوڈ کے لیے دماغ کے انعامی نظام کو غیر فعال کر دیتی ہیں، جس سے دماغ میں ڈوپامائن کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ ڈوپامائن ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو خوشی اور انعام کے احساس سے جڑا ہوتا ہے، اور یہ ہماری غذائی ترجیحات اور نشہ آور رویوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ان دواؤں کے ذریعے نشہ آور رویوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جو کہ خاص طور پر وہ لوگ جو کھانے کے حوالے سے لت میں مبتلا ہیں، ان کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔
کاربوکسی تھراپی: آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کا موثرعلاج
ایک اور حیران کن اثر یہ بھی سامنے آیا کہ یہ دوائیں جسم میں پانی کی کیفیت کو محسوس کرنے کے دماغی طریقہ کار میں تبدیلی لاتی ہیں، جس سے پیاس کے احساس میں کمی آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دواؤں کا اثر نہ صرف کھانے کی عادتوں اور وزن پر پڑتا ہے بلکہ یہ پانی کے جسمانی توازن اور اس کے احساسات پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہیں۔
GLP-1 (گلوکگن جیسی پینٹائڈ 1) ادویات وزن کم کرنے والی گولیوں سے کم مشابہت رکھتی ہیں اور یہ زیادہ تر دماغ کے کام کرنے کے طریقے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ دوائیں خاص طور پر ان حصوں کو متاثر کرتی ہیں جو بھوک، سیٹائٹی اور انعام کے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کے ضمنی اثرات ابھی بھی تشویش کا باعث ہیں، لیکن یہ دوائیں عصبی سطح پر بہت سی تبدیلیاں لاتی ہیں، جو کہ حیران کن اور انقلابی ثابت ہو سکتی ہیں۔
یہ تحقیقی نتائج موٹاپے کے علاج کے حوالے سے ایک نئی راہ کھولتے ہیں اور اس بات کا امکان بڑھاتے ہیں کہ مستقبل میں موٹاپے کا علاج صرف وزن کم کرنے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ دماغی صحت اور رویوں میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔ اس کے علاوہ، یہ ادویات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ موٹاپے کا علاج محض جسمانی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ دماغی سطح پر بھی بڑی تبدیلیاں لانا ضروری ہیں۔
یہ انجیکشنز نہ صرف وزن کم کرنے کے ایک نیا طریقہ ہیں بلکہ ان سے دماغی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان دواؤں کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے، اور آیا ان کے ضمنی اثرات کو کم کیا جا سکے گا۔ لیکن ان تحقیقاتی نتائج نے موٹاپے کے علاج کے مستقبل کے حوالے سے نئی امیدیں پیدا کی ہیں۔