نئی دہلی دھماکا، بھارتی خفیہ اداروں کی سازش!
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی پر حملے نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔ بھارتی تحقیقاتی اداروں کے مطابق حملہ آور گاڑی میں ریاست ہریانہ کے شہر فرید آباد سے نئی دہلی پہنچی۔ اہم بات یہ ہے کہ فرید آباد سے نئی دہلی کا راستہ 55کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔ فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی کے قریب سے ڈاکٹر عمر مبینہ طور پر گاڑی کو لے کر صبح 7:30پر روانہ ہوئے، ان کے ساتھ گاڑی میں مزید 2افراد موجود تھے، 8:20 پر گاڑی کو پیٹرول پمپ پر دیکھا گیا، گاڑی سے اتر کر ایک مسافر نے گاڑی کا ٹائر چیک کیا۔ دوسرا مسافر اترا، دونوں نے کچھ دیر گفتگو بھی کی۔ یہ گاڑی نئی دہلی کی طرف جاتے ہوئے ٹول پلازہ پر رکی اور پھر دلی میں داخل ہوگئی۔ ہریانہ کی رجسٹریشن نمبر والی گاڑی 3:19 پر پارکنگ میں داخل ہوئی، 3گھنٹے وہاں کھڑی رہی، پارکنگ سے نکل کر لال قلعہ کا رخ کیا اور پھر تقریباً آدھے گھنٹے بعد گاڑی میں دھماکا ہوگیا۔ یعنی دیکھا جائے تو صبح سے شام تک گاڑی 11گھنٹے تک سڑک یا پارکنگ میں رہی۔
سوال یہ ہے کہ سارے راستے میں گاڑی کو چیک کیوں نہیں کیا گیا؟ نئی دہلی میں سیکیورٹی ہمیشہ سے ہائی الرٹ رہتی ہے، ایسے میں گاڑی دارالحکومت میں داخل کیسے ہوئی؟ گاڑی گھنٹوں پارکنگ میں کھڑی تھی لیکن چیک کیوں نہ کی گئی؟ فرید آباد تک 2900کلوگرام دھماکا خیز مواد کیسے پہنچا؟ بندوقیں اور رائفلیں تک پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا، یہ اسلحہ کیسے پہنچ پایا؟ بھارتی پولیس اور تحقیقاتی ادارے کیا جھک مار رہے تھے؟ بھارتی تحقیقاتی ادارے گاڑی میں موجود تینوں افراد کی شناخت اب تک کیوں نہ کرپائے؟
گودی میڈیا ایسا کوئی سوال نہیں پوچھ رہا بلکہ وہ اپنے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی بڑی کامیابی ہے کہ صرف ایک ہی دھماکا ہوا، دہشت گردوں تو بہت سی جگہوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرچکے تھے۔
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے لیکن گودی میڈیا کا کوئی ایک بھی چینل سوال نہیں اٹھا رہا، وہ یہ نہیں پوچھ رہا کہ دھماکا روکنا کس کی ذمہ داری تھی۔ اربوں کھربوں کا بجٹ کھانے والی ایجنسیاں کہاں ہیں؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے پہلگام میں 25سیاحوں کو قتل کرنے کے ملزم آج تک بھارتی فورسز کی پکڑ میں نہ آسکے۔ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور شکست کھائی۔
نئی دہلی دھماکہ: عینی شاہد نے مودی سرکار کے متضاد بیانات پر سوال اٹھا دیے
تھوڑا سا پیچھے جائیں تو 2019میں پلواما میں بھارتی فوجی کانوائے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں 40کے قریب بھارتی فوجی مارے گئے۔ اس حملے میں استعمال ہونے والا دھماکا خیز مواد آر ڈی ایکس کہاں سے آیا، اس سوال کا جواب بھی سب ڈھونڈ رہے ہیں۔
نئی دہلی میں بم دھماکے کو کشمیریوں سے منسلک کردیا گیا ہے، مبینہ خودکش بمبار ڈاکٹر عمر کی والدہ اور دو بھائیوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے، اسی طرح مزید کئی افراد کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ گودی میڈیا مبینہ ملزمان کے گھروں تک جاپہنچا۔ تفتیش کے نام پر ماؤں، بہنوں اور بھائیوں کو لائن حاضر کر رکھا ہے۔
بھارتی میڈیا ہی کے مطابق چند روز پہلے گرفتار ڈاکٹر مزمل کے والد کم ذہن ہیں تاہم انہیں بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ گودی میڈیا چیخ چیخ کر کشمیریوں پر الزام لگا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک تجزیہ کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مودی سرکار کو مقبوضہ کشمیر کا نظام سنبھال لینا چاہیے اور نئے سرے سے پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت بھوٹان میں ہیں، انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ایجنسیاں حملے کی تہہ تک جائیں گی، ذمہ داروں کو کسی صورت بخشا نہیں جائے گا، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 5 نومبر 2025 کو بیان میں کہا تھا کہ آپریشن سندور ابھی ختم نہیں ہوا، ملتوی کیا ہے، آپریشن دوبارہ شروع ہوگا، حملہ کیا جائے گا۔
بھارتی میڈیا کی پاکستان مخالف مہم، فالس فلیگ آپریشن کا ایک اور مکروہ کھیل بے نقاب
پاکستان کے بدترین مخالف میجر جنرل جی ڈی بخشی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کو حملے کی سزا دینا ہوگی، پاکستان نے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کردیے ہیں، اگر ہم نے حملے کا ردعمل نہ دیا تو بھارت کی ساکھ کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، اگر ایسا نہ کیا تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی۔
گودی میڈیا کی خبروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ انھیں پاکستان کے خلاف ٹاسک دے دیا گیا ہے کہ اپنے عوام کو جیسے چاہو بے وقوف بناؤ لیکن جنگ کی آگ بھڑکاؤ۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے بھارتی عزائم سامنے آتے جارہے ہیں، گودی میڈیا نے کشمیریوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا، نئی دہلی کار بم دھماکے کا الزام براہ راست کشمیریوں پر لگایا جارہا ہے۔ بھارتی انتہاپسند رہنماؤں کے بیانات سے بھی واضح ہے کہ جنگ کا ماحول تیار کیا جارہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا ایک اور پاک بھارت جنگ دیکھنے کو تیار ہے اور کیا خطہ اس کے اثرات برداشت کرپائے گا۔