دہلی دھماکا اور مسلمان ڈاکٹروں کی گرفتاریاں، وجہ کیا ہے؟
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پیر کی شام جس کار میں دھماکا ہوا وہ گاڑی ریاست ہریانہ میں رجسٹرڈ ہے اور وہ مبینہ طور پر ایک مسلمان کے نام پر ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ ہر پہلو سے تحقیقات جاری ہے، دہشت گردی سمیت کسی بھی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جارہا۔
نئی دہلی پولیس کمشنر کے مطابق دھماکا لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب ایک سگنل پر ہوا، گاڑی میں تین افراد بھی موجود تھے، دھماکا اتنا شدید تھا کہ زد میں آنے والی گاڑیوں اور شہریوں کے چیتھڑے اڑ گئے۔ بہار، ممبئی اور دہلی سمیت متعدد اہم شہروں میں پولیس ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔
بھارتی میڈیا نے دھماکے کو چند ہی گھنٹوں میں پلوامہ حملے سے جوڑنے کی کوشش کی۔ نئی دہلی دھماکے کے حوالے سے ڈاکٹر مزمل شکیل اور ڈاکٹر عدیل احمد سے پوچھ گچھ کی گئی۔
یہ دونوں ڈاکٹر کون ہیں؟ پہلے ان ڈاکٹروں کے بارے میں جانتے ہیں۔
بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان دونوں ڈاکٹروں کو دیگر دو ڈاکٹروں سمیت متعدد افراد کو گزشتہ چار روز میں مقبوضہ کشمیر، ہریانہ، گجرات اور اتر پردیش سے گرفتار کیا گیا ہے، ان میں ڈاکٹر مزمل شکیل اور ڈاکٹر عدیل احمد شامل ہیں، ان دونوں کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے، ڈاکٹر مزمل کو ہریانہ سے پکڑا گیا۔
ڈاکٹر مزمل شکیل کو ہریانہ سے حراست میں لیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے کمرا کرائے پر لے رکھا تھا جہاں سے 2900کلوگرام دھماکا خیز مواد، رائفلیں، ٹائمرز اور بیٹریاں ملیں۔
خاتون ڈاکٹر کو بھی فرید آباد سے گرفتار کیا گیا ہے، ان کا نام ڈاکٹر شاہین شاہد ہے، یہ خاتون لال باغ، لکھنؤ کی رہائشی ہیں۔بھارتی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق مبینہ طور پر ڈاکٹر مزمل سے ہے۔ جو ان کی گاڑی کو اسلحہ منتقلی کے لیے استعمال کرتا رہا، گاڑی سے رائفل اور گولیاں وغیرہ بھی ملی ہیں۔
ڈاکٹر عدیل احمد قاضی گنڈ، اننت ناگ کشمیر کے رہائشی ہیں، 27سالہ عدیل کو اتر پردیش (یوپی) سے گرفتار کیا گیا، ان سے کلاشنکوف برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
ڈاکٹر احمد محی الدین سید کو گجرات سے پکڑا، ان کی عمر 35 برس ہے۔ ان پر کیمیائی حملے کی تیاری کا الزام لگایا گیا۔ ان افراد کا دو الگ الگ واقعات سے تعلق بھی بتایا جارہا ہے۔ بھارتی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق یہ تمام افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور عالمی ہینڈلرز سے ان کے رابطے ہیں۔
اب ایک نظر بھارتی ریاست بہار کے الیکشن پر ڈالتے ہیں۔ جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابی مہم میں عوام کو گھس بیٹھیوں کے خطرے سے ڈرایا، بار بار یہ بات کہی گئی کہ آپریشن سندور ابھی مکمل نہیں ہوا، بھارت پہلگام واقعہ کا بدلہ لے کر رہے گا۔ بھارت میں یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ ریاست بہار کے الیکشن میں جیت کے لیے مودی اور امیت شاہ نے پورا زور لگا رکھا ہے۔ ریاست کی خواتین کو کاروبار کے نام پر 10ہزار روپے دیے گئے۔ گھس بیٹھیوں (بنگلا دیش کے شہریوں) اور پاکستان کے خلاف مزید جارحیت کی باتیں کی گئیں۔ امیت شاہ نے اربوں روپے کی لاگت سے سیتا مندر بنانے کا بھی اعلان کردیا۔
گودی میڈیا بھی مودی کے حق میں مہم چلا رہا ہے لیکن بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ بہار کے عوام شاید متاثر نہیں ہوئے اور وہ کانگریس کے بینر تلے اتحادیوں کی طرف جاسکتے ہیں۔ کانگریس رہنما راہول گاندھی نے انتخابی فہرستوں میں جعل سازی کو آشکار کیا۔ جس نے مودی کی انتخابی مہم کو خاصا نقصان پہنچا۔ ایسے میں کسی ایسے واقعہ کی ضرورت تھی جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتہاپسندانہ سوچ کو پروان چڑھائے۔ مسلمانوں کو ایک بار پھر دشمن بنا کر پیش کیا جائے۔ مذہب کارڈ کھیلا جائے اور فتح حاصل کی جائے۔
ادھر امریکی صدر ٹرمپ بار بار مودی کو اپنا دوست بتاتے ہیں اور دنیا بھر میں مودی کا مضحکہ بھی اڑا رہے ہیں۔ بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کرچکے ہیں۔ بھارت کا دورہ کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ بھارت کا نام تو نہیں لیتے لیکن یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے جنگ میں آٹھ تک طیارے گرے، جو بہت خوبصورت اور جدید تھے۔ بھارت بھر میں مودی سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ ٹرمپ کو جواب کیوں نہیں دیتے؟ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ بھارت کا کوئی طیارہ نہیں گرا۔ ٹرمپ کو کیوں نہیں کہتے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو؟ مودی یا امیت شاہ کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت پھر کسی فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے؟ کیا دہلی دھماکا اور مبینہ دہشت گردوں کی گرفتاری اسی سلسلے کی کڑی ہے اور کیا بھارت ایک بار پھر خطے کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی تیاری کررہا ہے۔ چند ہی دنوں میں یہ بات واضح ہوجائے گی۔