شائع 05 نومبر 2025 01:37pm

ای چالان سندھ کا واحد مسئلہ!

دنیا بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان ہوتے ہیں، کیمروں سے تصاویر نکالی جاتی ہیں، بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں لیکن اس سب سے پہلے وہ نظام تخلیق کیا جاتا ہے جہاں سڑکیں عوام کو میسر ہوں، سڑکوں پر نشانات بھی ہوں اور اس سے بھی پہلے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کا سخت ترین نظام ہوتا ہے۔ اگر آپ کو ٹریفک اشاروں سے درست آگاہی نہیں، گاڑی چلانے کا طریقہ نہیں معلوم تو پھر آپ کو لائسنس ہی نہیں ملے گا، اور لائسنس نہیں ہوگا تو گاڑی کیسے چلا سکیں گے۔

مقررہ سال سے زیادہ پرانی گاڑی کو فٹنس کے سخت مرحلے سے گزر کر ہی سڑک پر چلنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن اگر کراچی سمیت سندھ بھر کا جائزہ لیں تو کئی کئی دہائی پرانی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں، نہ ان کی فٹنس کی کسی کو فکر ہے، نہ ماحولیات کو تباہ کرنے پر کسی کی نظر ہے، ہر چھوٹی بڑی گاڑی میں پریشر ہارن ہونا عام سی بات ہے، اشارے کام کریں یا نہ کریں اس بات سے کسی کو کوئی مطلب نہیں ہے۔ بھاری گاڑیوں یعنی ٹینکر، ڈمپر وغیرہ کی اکثریت پر نمبر پلیٹ ہوتی ہی نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو سندھ سے باہر کی ہوتی ہے۔ میڈیا روزانہ کی بنیاد پر اسے رپورٹ کرتا رہتا ہے۔

سڑکیں تجاوزات والوں نے گھیر رکھی ہیں، جس کی جہاں مرضی آتی ہے بیچ سڑک پر ٹھیلا لے کر کھڑا ہوجاتا ہے، پتھارا لگا لیتا ہے، دکانداروں نے کوریڈرو اور فٹ پاتھ تک گھیر رکھے ہیں، جہاں خالی زمین ہو وہاں کوئی نہ کوئی قبضہ کرلیتا ہے۔ جب اور جہاں دل چاہتا ہے لٹیرا آدھمکتا ہے، سڑک، گلی حتیٰ کہ آپ اپنے گھر کے دروازے تک پر محفوظ نہیں ہیں۔ کہیں بھی آپ کو لوٹا جاسکتا ہے۔ تھانے جائیں تو پہلے تو آپ کو تھانے میں کوئی منہ نہیں لگائے گا، اگر کوئی جان پہچان یا سفارش لے کر پہنچ جائیں تو پہلے تھانے والوں کا زور ہوگا کہ آپ ایف آئی آر کے بجائے ڈکیتی یا چوری کی درخواست دے کر اپنی بھی جان چھڑائیں اور پولیس پر بھی بوجھ نہ ڈالیں۔ پارک میں جھانکیں تو وہاں بھی تجارتی سرگرمیاں نظر آئیں گی۔ بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز ہیں لیکن انھوں نے پارکنگ کے لیے مختص جگہ پر دکانیں بنا کر بیچ ڈالی ہیں، نقشہ چیک کریں تو پارکنگ لکھی نظر آئے گی۔

پہلے پارکنگ فیس ہوتی تھی اب پارکنگ فیس ختم کردی گئی لیکن گاڑی یا موٹرسائیکل پارک کرنے کے پیسے اب بھی دینا پڑتے ہیں، ہر سڑک پر یا شاپنگ سینٹر کے باہر کچھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں جو گاڑیاں لگواتے ہیں اور پہلے تو دس بیس روپے تھے اب تو موٹرسائیکل تک کے 30روپے سے کم چارج نہیں کیے جاتے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر بائیک یا گاڑی چوری ہوجائے، کوئی ٹوٹ پھوٹ ہوجائے تو آپ کوئی دعویٰ بھی نہیں کرسکتے۔ علاقے کا تھانہ سڑکوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر مبینہ طور پر روزانہ یا ہفتے کی بنیاد پر بھتہ وصول کرتا ہے۔ دودھ، سبزی، روٹی کسی چیز کی سرکاری قیمت پر شاذ ہی عمل ہورہا ہے، ہر ایک اپنی مرضی کی قیمت وصول کر رہا ہے، اگر احتجاج کرو تو دکاندار کہتا ہے کہ آگے بڑھو، جو کرسکتے ہو کرلو۔

جس کا مال اس کی مرضی، جس قیمت پر چاہے فروخت کرے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک دو یا دس نہیں اس شہر کے ہزاروں مسائل ہیں جنہیں ٹھیک کیا جانا ضروری ہے لیکن حکومت کی نظر میں سب سے بڑا کام یہی تھا کہ ای چالان نظام نافذ کردیا جائے۔

کراچی سمیت سندھ میں کیا ہورہا ہے، اب اس پر کوئی بات نہیں کررہا سب ہی ای چالان پر بات کر رہے ہیں۔ کیا حکومت کا صرف یہی ایک کام تھا؟ باقی کام کون کرے گا؟ صوبے کو قبضہ مافیا سے نجات کون دلائے گا؟ سڑکیں کون بنائے گا اور فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے قبضہ کون چھڑائے گا؟ ڈکیتوں کو نکیل کون ڈالے گا؟ مہنگائی سے نجات کون دلائے گا؟ نوکریوں کا بندوبست کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ اور اس جیسے لاتعداد سوالات ہیں جو عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، کیا حکومتی جغآدریوں کو یہ سوالات نظر نہیں آتے؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک تیس ہزار سے زیادہ چالان ہوچکے ہیں، ان میں سیٹ بیلٹ نہ باندھنے اور بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل چلانے والوں کے زیادہ چالان کیے ہیں، جرمانوں کی رقم اتنی زیادہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے مطابق وہ چالان کی رقم جمع کرانے کے بجائے موٹرسائیکل جمع کرادیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اگر عوام یا دوسری سیاسی جماعتیں یہ الزام لگائیں کہ ای چالان کا مقصد ٹریفک قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل نہیں بلکہ عوام کی جیبوں سے پیسا نکلوانا ہے تو سندھ حکومت اس کا دفاع کیسے کرپائے گی؟ حکومت کا یہ اختیار ہے کہ صوبے یا کسی شہر کی بھلائی کے لیے بہتر سے بہتر قوانین بنائے لیکن اس سے قبل عوام کی آگاہی کے لیے بھی تو اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

پالیسی سازوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عوام ہی ہیں جو انھیں حق حکمرانی بخشتے ہیں، اپنے حقوق کے دفاع کے لیے منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔ عوام کو ان کا حق ملنا چاہیے اگر آج آپ انھیں یہ حق نہیں دیں گے تو جب کبھی عوام کو اپنے ووٹ سے حکمرانوں کو بدلنے کا موقع ملا تو وہ یہ کر گزریں گے اور آپ خود کو ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Read Comments