انجینئیر محمد علی مرزا کی رہائی قریب؟ عدالت کے اہم ریمارکس
اسلام آباد ہائیکورٹ میں انجینئیر محمد علی مرزا کو گستاخی کا مرتکب قرار دینے سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی قرارداد کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں کونسل کی جانب سے تحریری جواب جمع نہ کرانے پر عدالت نے ایک ہفتے کی آخری مہلت دے دی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر آئندہ سماعت تک جواب جمع نہ کرایا گیا تو فیصلہ جاری کر دیا جائے گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں سماعت کے دوران وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے کیونکہ آئین کے مطابق کونسل صرف صدرِ مملکت یا صوبائی گورنر کی درخواست پر ہی رائے دینے کی مجاز ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ کونسل کی انجینئیر مرزا سے متعلق قرارداد کو معطل کیا جائے۔ تاہم عدالت نے کہا کہ دوسری جانب سے جواب آئے بغیر عبوری حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔
دورانِ سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر اس نئے تصور کو قبول کیا جائے تو توہینِ مذہب سے متعلق تمام کیسز اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے پڑیں گے۔ عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو حکم دیا کہ وہ آئندہ ایک ہفتے میں تحریری جواب داخل کرے۔ جس کے بعد کیس کی سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
ادھر انجینئیر محمد علی مرزا نے بھی اس کیس میں فریق بننے کی متفرق درخواست دائر کی ہے، تاہم رجسٹرار آفس نے اس پر اعتراضات لگا دیے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ پہلے اعتراضات دور کیے جائیں، اس کے بعد فریق بننے کی درخواست پر فیصلہ کیا جائے گا۔
انجینئیر محمد علی مرزا ایک معروف مذہبی اسکالر ہیں جو اپنے غیر روایتی نظریات کے باعث اکثر تنازعات میں گھِر جاتے ہیں۔ اُن پر ماضی میں بھی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں، تاہم وہ محفوظ رہے۔ اُن کا یوٹیوب چینل لاکھوں سبسکرائبرز پر مشتمل ہے اور وہ خود کو “مسلم علمی کتابی” کہتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق وہ کسی مخصوص مسلک سے تعلق ظاہر نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے مؤقف سے کئی مکاتبِ فکر ناراض رہتے ہیں، مگر ان کی دلیل پر مبنی گفتگو نے لاکھوں لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ 26 اگست 2025 کو پنجاب کے شہر جہلم میں انجینئیر محمد علی مرزا کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق مقدمہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-سی کے تحت درج کیا گیا، جو پیغمبرِ اسلام کی توہین پر سزائے موت سے متعلق ہے۔ اس سے قبل محمد علی مرزا کو حراست میں لے کر تھری ایم پی او کے تحت جیل میں نظر بند کیا گیا تھا، جس کے تحت کسی شخص کو امنِ عامہ کے خدشے پر حفاظتی حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
بعدازاں، اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں محمد علی مرزا کے بیانات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، جس کے بعد کونسل نے کہا کہ ان کے بعض جملے ”نقلِ کفر“ پر مشتمل ہیں مگر کسی شرعی ضرورت کے بغیر ادا کیے گئے، جو ناجائز اور گناہ ہیں۔ کونسل نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس معاملے پر پاکستان کی مسیحی برادری سے تحریری وضاحت طلب کی جائے گی کہ آیا مرزا کے بیانات اُن کے مذہبی عقائد سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔
دوسری جانب، جہلم پولیس کے مطابق محمد علی مرزا کی حراست عوامی تحفظ کے لیے احتیاطی اقدام کے طور پر کی گئی، کیونکہ اُن کے بیانات کو اشتعال انگیز اور امنِ عامہ کے لیے خطرناک قرار دیا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ اُن سے ملاقات صرف وکلا اور اہلِ خانہ کو اجازت ہے کیونکہ معاملہ حساس مذہبی نوعیت کا ہے۔