Aaj Logo

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2025 12:30pm

آزاد کشمیر: ن لیگ نے قبل ازوقت انتخابات کیلئے شرط رکھ دی

آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی اور قبل از وقت انتخابات کے معاملے پر نیا سیاسی بحران جنم لے چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنی واضح شرط پیش کر دی ہے کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو وہ حکومت اسمبلی تحلیل کر کے فوری انتخابات کرائے گی۔

ذرائع کے مطابق ن لیگ نے اپنے یہ مطالبات صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو بھی پہنچا دیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ آزاد کشمیر میں صاف اور شفاف انتخابات ہی اس سیاسی بحران کا واحد حل ہیں۔

ادھر پیپلز پارٹی نے وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کو حتمی شکل دے دی ہے، لیکن وزیراعظم نے مستعفی ہونے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی کو 27 ارکان کی حمایت درکار ہے، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک 36 ارکان نے پیپلز پارٹی کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

آزاد کشمیر اسمبلی کے کل 53 ارکان میں سے 52 ارکان ایوان میں موجود ہیں، جبکہ ایک رکن محمد اقبال پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کی حمایت کرنے والوں میں پیپلز پارٹی کے 17، مسلم لیگ (ن) کے 9، اور سلطان گروپ و فارورڈ بلاک کے 10 ارکان شامل ہیں۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ سطحی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں احسن اقبال، رانا ثنا اللہ اور امیر مقام سمیت اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد احسن اقبال نے اعلان کیا کہ ن لیگ پیپلز پارٹی کی حمایت کرے گی مگر حکومت میں شامل نہیں ہوگی بلکہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے گی۔

دوسری جانب وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر تحریکِ انصاف بھی میدان میں آگئی ہے۔ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ جانے والے اپنے 17 منحرف ارکان کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔

پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم نیازی اور قائدِ حزبِ اختلاف خواجہ فاروق احمد نے اعلان کیا ہے کہ ان ارکان کے خلاف ”فلور کراسنگ“ ریفرنس دائر کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2020 کی دفعہ 30 کے تحت پارٹی چھوڑنے والے ارکان نااہلی کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ابتدائی طور پر 4 ارکان کے خلاف ریفرنس اسپیکر اسمبلی کو جمع کرا دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی ابھی تک تحریکِ عدم اعتماد جمع نہ کرا سکی

وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا معاملہ تاحال لٹکا ہوا ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی اب تک اسمبلی میں تحریک جمع نہیں کروا سکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک میں تاخیر کی اصل وجہ نئے وزیراعظم کے نام پر حتمی فیصلہ نہ ہونا ہے۔

ذرائع کے مطابق آئین کے تحت تحریکِ عدم اعتماد پیش کرتے وقت نئے وزیراعظم کا نام دینا لازمی ہوتا ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر پیپلز پارٹی میں مشاورت ابھی مکمل نہیں ہو سکی۔ بتایا جا رہا ہے کہ پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ نئے وزیراعظم کے نام کا اعلان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود کریں گے۔

پارٹی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری وطن واپس پہنچنے کے بعد حتمی مشاورت کریں گے اور اسی کے بعد تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کرائی جائے گی۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے اپنے منحرف اراکین کے خلاف نااہلی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت نے قانونی ٹیم کو ہدایت دی ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت ان اراکین کے خلاف کارروائی شروع کی جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کو اپنے اتحادی گروپوں، خصوصاً فارورڈ بلاک اور مہاجرین نشستوں سے منتخب اراکین کے تحفظات کا سامنا ہے۔ ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی آج اہم ملاقاتیں متوقع ہیں۔

گزشتہ روز پیپلز پارٹی کی رہنما فریال تالپور نے بھی سابق صدر و لیگی رہنما بیرسٹر سلطان محمود سے ملاقات کی تھی، جس میں موجودہ سیاسی صورت حال اور آئندہ حکمتِ عملی پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔

Read Comments