اٹھارہ فروری 2024 کی رات لاہور کے علاقے چوہنگ میں شادی کی تقریب میں امیر بالاج ٹیپو کو قتل کردیا گیا۔ اس قتل نے پنجاب پولیس میں ہلچل مچا دی۔ ٹرانسپورٹ بزنس سے منسلک لاہور کے ’’امیر الدین عرف بِلا ٹرکاں والا‘‘ کے قتل سے شروع ہونے والی دشمنی امیر بالاج ٹیپو کے قتل تک جا پہنچی۔ ٹرکاں والا خاندان کے تین سربراہوں کے قتل کے بعد دشمنی کی لہر نے طیفی اور گوگی بٹ خاندان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
امیر بالاج ٹیپو کوئی عام شخص نہیں تھا، وہ ایک مشہور کاروباری اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا، جس کی جڑیں لاہور کے انڈر ورلڈ سے لے کر گڈز ٹرانسپورٹ نیٹ ورک تک پھیلی ہوئی تھیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بالاج ٹیپو کو کیوں قتل کیا گیا؟ اس دشمنی کی بنیاد کیا تھی؟
امیر بالاج کے دادا بلا ٹرکاں والا اور والد عارف عرف ٹیپو ٹرکاں والا گڈز ٹرانسپورٹ کے مشہور نام تھے۔ پورے پاکستان میں ان کے کاروبار کے دفاتر موجود تھے۔ ٹیپو ٹرکاں والا کے قتل کے بعد، اس کے بیٹے امیر بالاج ٹیپو نے خاندانی کاروبار سنبھالا اور اپنے والد کے کام کو آگے بڑھایا۔
تعلیم کے لحاظ سے امیر بالاج ایک فارن گریجویٹ تھا۔ ابتدا میں وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے منسلک رہا، لیکن 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد اس نے پارٹی چھوڑ دی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگیا۔ امیر بالاج نے حمزہ شہباز کی حمایت کی اور لاہور کے حلقہ 118 میں ن لیگ کے کئی جلسے اور ورکرز کنونشن منعقد کرائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ عموماً دشمنی ختم کرنے اور مذاکرات سے مسائل حل کرنے کے حامی کے طور پر جانے جاتے تھے۔
یہ کہانی تین دہائیوں پرانی ہے۔ 1993 میں امیرالدین عرف میرو اور فرید گجر نامی افراد کے چچا کو قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی ایف آئی آر میں جن لوگوں کے نام شامل کیے گئے، ان میں امیرعارف عرف ٹیپو ٹرکاں والا (یعنی بالاج کے والد) اور ان کے ملازمین شفیق بابا، حنیف عرف حنیفا بابا، اور بالا فوارے والا شامل تھے۔
پولیس تفتیش کے بعد میر عارف کو بے گناہ قرار دیا گیا، مگر شفیق بابا اور حنیفا بابا مفرور ہونے پر اشتہاری قرار دے دیے گئے۔ بالا فوارے والا گرفتار ہوا لیکن مقتول کی بیوی سے صلح کے بعد رہا ہو گیا۔
کچھ عرصے بعد مقتول کی بیوی نے دیگر ملزمان سے بھی صلح کے لیے رقم مانگی۔ جب بلا ٹرکاں والا (بالاج کے دادا) نے پیسے دینے سے انکار کیا تو انہی ملزمان نے 1994 میں انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور طیفی اور گوگی بٹ کے پاس پناہ لے لی۔ بدلے کے کیلئے ٹیپو نے اپنے دونوں سابق ملازمین کو قتل کروا دیا۔
یہ وہ واقعہ تھا جس نے ٹرکاں والا خاندان اور مخالف گروہ کے درمیان دائمی دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔
کئی حملوں میں بچ جانے کے بعد 2010 میں جب عارف عرف ٹیپو ٹرکاں والا بیرونِ ملک سے لاہور واپس آیا تو مخالفین نے اسے ایئرپورٹ کی پارکنگ میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
اس کیس میں گوگی بٹ اور دیگر ملزمان کو نامزد کیا گیا۔ یہی دشمنی بعد میں بالاج ٹیپو تک جا پہنچی۔
اس کے بعد ایک لمبا عرصہ خاموشی رہی کیونکہ بالاج ٹیپو اور اس کے بھائی ابھی کمسن تھے اور گینگ وار کی آگ سے بچنے کیلئے انہوں نے ایک لمبا عرصہ بیرون ملک یا انتہائی محفوظ حصار میں گزارا۔
18 فروری 2024 کی رات لاہور کے علاقے چوہنگ میں ایک شادی کی تقریب کے دوران فائرنگ ہوئی۔
یہ تقریب سابق ڈی ایس پی اکبر اقبال بلا کے بیٹے کی شادی کی تھی، جہاں بالاج ٹیپو بھی مدعو تھا۔
پولیس کے مطابق، اچانک ایک حملہ آور نے فائرنگ کر دی، جس سے امیر بالاج ٹیپو سمیت تین افراد زخمی ہوئے۔ انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، مگر بالاج ٹیپو زخموں کی تاب نہ لا سکا۔
اس کے محافظوں کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور بھی موقع پر ہلاک ہو گیا۔
امیر بالاج کی مخبری کے الزام میں گرفتار اس کا سابق دوست احسن شاہ پولیس کی حراست میں مبینہ فرار کی کوشش میں مارا گیا۔
بعد ازاں، پولیس نے اس واقعے میں گوگی بٹ اور طیفی بٹ سمیت کئی ملزمان کو نامزد کیا۔
چند ہی روز میں امیر بالاج قتل کیس کے مرکزی ملزم طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید بٹ کو بھی دن دیہاڑے لاہور کی کینال روڈ پرقتل کر دیا گیا۔
اکتوبر 2025 میں اس کیس میں بڑی پیشرفت سامنے آئی۔
سی سی ڈی (کاؤنٹر کرائم ڈپارٹمنٹ) نے نامزد اشتہاری ملزم خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ کو انٹرپول کی مدد سے دبئی سے گرفتار کر لیا۔ ذرائع کے مطابق، ملزم کو جلد پاکستان منتقل کیا جائے گا تاکہ کیس کی تفتیش آگے بڑھ سکے۔
سی سی ڈی نے سی سی پی او لاہور سے کیس کی تفتیش اپنے سپرد کرنے کی درخواست کر دی ہے، اور ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ نے اس حوالے سے باقاعدہ مراسلہ بھی لکھا ہے۔
فی الحال کیس کی تفتیش لاہور پولیس کی جے آئی ٹی کر رہی ہے، جس نے ستمبر 2025 میں اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ گوگی بٹ نے ہی بالاج ٹیپو کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔
پولیس کے مطابق، گوگی بٹ اس وقت عدالت سے عبوری ضمانت پر ہے جبکہ طیفی بٹ کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
اس گینگ وار میں کئی چھوٹے کارندوں کے علاوہ ٹیپو خاندان کے 3 اور طیفی بٹ خاندان کا ایک شخص جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔