اخبارات کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کا سب سے بڑا اردو اخبار ’روزنامہ جنگ‘ گزشتہ روز اور آج بھی بغیر اداریے کے شائع ہوا ہے جس پر صحافتی حلقوں نے تعجب کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے صحافتی، سیاسی، سماجی اور تاریخی تناظر میں جنگ اخبار کی ایک خاص اہمیت ہے۔
روزنامہ جنگ پاکستان کا سب سے پرانا اور بڑا اردو اخبار ہے جس کی بنیاد سنہ 1939 میں رکھی گئی تھی۔ اس کا اجرأ اخبار کے بانی میر خلیل الرحمٰن نے دوسری عالمی جنگ کے دوران سنہ 1939 میں دہلی سے کیا تھا۔ اس اخبار میں عوامی دلچسپی اتنی زیادہ دیکھی گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام ’جنگ‘ رکھا گیا تھا۔
تاہم کئی دہائیوں تک جنگ اخبار کا ادارتی سیکشن قارئین کے لیے ایک اہم فورم رہا ہے جہاں ملکی و بین الاقوامی حالات، سیاست، سماجی مسائل، ثقافتی اور دیگر موضوعات پر گہری اور بامقصد رائے پیش کی جاتی تھی۔
برسوں سے جنگ اخبار کی زینت بننے والا اداریہ شائع ہونا رُک گیا ہے جس کی بندش کے بارے میں انتظامیہ کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اداریے کی بندش پر اخبار سے وابستہ اور دیگر صحافتی حلقوں نے حیرانگی کا اظہار کیا ہے کیوں کہ یہ صحافت کی دنیا میں ناقابل یقین واقعہ ہے۔
کسی بھی اخبار کا ادارتی صفحہ اس کی پالیسی اور اس کے نقطہ نظر کی نمائندگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ادارتی صفحہ وہ خاص صفحہ ہوتا ہے جہاں اخبار کی اپنی رائے، تجزیے، اور تبصرے شائع کیے جاتے ہیں۔ یہ خبریں بیان کرنے سے زیادہ، حالات حاضرہ کی تشریح اور تجزیہ پیش کرتا ہے۔
مذکورہ صفحے پر عام طور پر اخبار کی مرکزی اور رسمی رائے، مختلف مصنفین کے تجزیے اور آراء شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قارئین کے خیالات اور تجاویز بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
اخبار کا اداریہ عام طور پر ادارتی بورڈ یا اداریہ ٹیم کے ذریعے لکھا جاتا ہے۔ یہ بورڈ یا ٹیم مختلف سینئر صحافیوں اور ایڈیٹرز پر مشتمل ہوتی ہے۔
سینئر صحافی محمود شام نے جنگ اخبار میں اداریے کی بندش پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے سوشل میڈیا سائٹ فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ”آج اردو صحافت کی 200 سالہ تاریخ میں اردو کا سب سے بڑا اخبار جنگ اداریے کے بغیر شائع کیا گیا ہے۔“
محمود شام پاکستان کے نامور صحافی، شاعر اور جنگ اخبار میں بطور ایڈیٹر کئی برس خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے ایک اور پوسٹ میں لکھا کہ ”خبر تو جا ہی چکی تھی اداریہ بھی گیا، مزاج عصر پرکھنے کا آئینہ بھی گیا۔“
ایک اور سینئر صحافی شاہین صہبائی نے ایکس پر پوسٹ میں اس حوالے سے لکھا کہ “ جنگ اخبار کو کیا ہو گیا ہے؟ آج میڈیا میں ایک انہونی چیز دیکھی کہ سب سے بڑے اخبار ’جنگ‘ میں ادارتی صفحے سے اداریہ ہی غائب ہے۔“
انہوں نے لکھا کہ ”کیا سارے ایڈیٹر چھٹی پر چلے گئے ہیں یا کوئی حکومت کی تعریف کرنے کا موضوع نہیں ملا؟ افسوس ہو رہا ہے کہ میں اس گروپ میں بھی 11 سال کام کرتا رہا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا-“
نجی ٹی وی چینل ہم نیوز سے وابستہ صحافی و پروڈیوسر احتشام الحق نے لکھا ہے کہ جنگ اخبار بغیر اداریے کے شائع ہوا۔ اداریہ عام طور پر حکومتوں کو آئینہ دکھانے کے لیے ہوتا تھا۔ اب وہ سب نہیں رہا تو اداریے کی کیا ضرورت؟
ایک اور صحافی ثاقب بشیر نے جنگ میں اداریہ نہ شائع ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ ”حیران کن ہے جنگ اخبار کا ایڈیٹوریل کیوں غائب ہے؟“
سینئر صحافی غضنفر عباس نے جنگ میں اداریے کی بندش سے متعلق ایکس پر لکھا کہ روزنامہ جنگ آج بغیر اداریے کے شائع ہوا ہے۔ ملتان سے سینئیر صحافی رضی الدین رضی کے مطابق سیلاب روزنامہ جنگ کا اداریہ بھی بہا کر لے گیا۔
وہیں پاک نیوز کے ایڈیٹر اِن چیف سینئر صحافی اظر سید نے لکھا کہ جنگ اخبار کی بغیر اداریہ کے اشاعت پر غم نہ کریں بلکہ پرنت میڈیا کی فاتحہ خوانی کی تیاری کریں۔ جب ہاکر ہی ختم ہو گئے تو اداریہ کا کوئی فائدہ؟