آوازیں لگا کر اخبار بیچنے والے ہاکر اب بہت تھوڑے رہ گئے ہیں، کبھی یہ ایک فن تھا، ہوٹل ڈی پیرس چھوٹکی گٹی حیدرآباد کے باہر سائیکل پر اخبار لیے ہاکر جو خبریں سناتا تھا، وہ ٹی وی کی خبروں سے زیادہ پرکشش تھیں۔ رنگین داستانیں، عجیب و غریب کہانیاں لیکن اخبار خریدنے والوں کو یہ خبریں اخبار میں نہیں ملتی تھیں کیونکہ یہ اخبار بیچنے والے ہاکر کا کمال تھا۔
آج دنیا بھر میں ایک ہاکر کا ذکر ہے، جو خوش قسمتی سے پاکستانی بھی ہے اور اس نے نیک نامی کمائی ہے۔ اب فرانس کی حکومت اس پاکستانی کے طویل، مثالی اور بے لوث سفر کو ایک بڑے اعزاز سے نوازنے جا رہی ہے۔
رواں برس ستمبر میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون اس پاکستانی ہاکر کو ”نیشنل آرڈر آف میرٹ“ (National Order of Merit) کے تمغے سے نوازیں گے۔ جو فرانس میں شہری یا عسکری خدمات پر دیا جانے والا ایک اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔
پیرس کے تاریخی لاطینی کوارٹر کی دلکش گلیوں میں جہاں صدیوں سے دانشوروں کی بحثیں اور فنکاروں کی تحریکیں، فن پاروں کی نمائش، شاندار مذاکرے، اہل علم و دانش کی محفلیں گونجتی رہی ہیں، وہیں ایک 73 سالہ شخص آج بھی ایک ختم ہوتی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے، وہ بھی ایک ایک اخبار بیچ کر۔
علی اکبر نامی شخص جو پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں، گزشتہ 50 سال سے زائد عرصے سے پیرس کے کیفے اور ریسٹورنٹس کے باہر روزانہ اخبارات بیچ رہے ہیں اور اپنی خوش مزاجی، زندہ دلی اور پرخلوص رویے سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے ہوئے ہیں۔
ایک ایسے علاقے میں جہاں اعلیٰ درجے کے فیشن بوتیک اور کھانے پینے کی دکانوں نے بڑی حد تک کتابوں کی دکانوں کی جگہ لے لی ہے۔
علی اکبر کو سراہنے والے ایک شکر گزار گاہک میری لاور کیریری کا کہنا ہے کہ علی اکبر ایک ادارہ ہے، میں ہر روز اس سے ’لی مونڈے‘ خریدتا ہوں۔ درحقیقت ہم اس کے لیے ’لی مونڈے‘ خریدنے سے کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں، ہم اس کے ساتھ کافی پیتے ہیں، کبھی کبھی ہم اس کے ساتھ لنچ بھی کرتے ہیں، پاکستانی معاشرے میں تو ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک ہاکر کے ساتھ چائے پیئیں یا لنچ کریں۔
علی اکبر نے 1973 میں فرانس ہجرت کی، یہ وہ وقت تھا جب ٹیلی وژن نے اخبار کی جگہ لینا شروع کر دی تھی۔ علی اکبر نے زیادہ تر پاکستانی تارکین وطن کی طرح فیکٹریوں یا دیگر محنت مزدوری کے شعبوں میں جانے کے بجائے سڑکوں پر اخبارات بیچنے کو ترجیح دی۔
اُن کے اولین گاہک سوربون یونیورسٹی اور آس پاس کے تعلیمی اداروں کے طلبہ تھے اور ان کا سب سے پہلا مقبول اخبار طنزیہ ہفت روزہ چارلی ہیبڈو تھا۔ وہی چارلی ہیبڈو جو توہیں رسالت ﷺ کے کارٹون کی اشاعت کا مرتکب ہوا تھا، جس پر ساری دنیا میں احتجاج ہوا تھا لیکن یہ اس سے بہت پہلے کی باتیں ہیں۔
شروع سے ہی علی اکبر نے اخبار بیچنے کو ایک فن کا درجہ دیا، محض تجارت نہیں سمجھا۔ وہ ہر روز مسکراتے چہرے اور چلبلی باتوں کے ساتھ لوگوں سے ملتے، اُنہیں ہنساتے اور زندگی کے معمولی لمحوں میں خوشی کا رنگ بھر دیتے۔
علی اکبر اپنے اس انداز کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”میرا اخبار بیچنے کا ایک الگ ہی انداز ہے، میں مزاح پیدا کرتا ہوں تاکہ لوگ ہنسیں، مثبت بات کرتا ہوں اور ماحول خوشگوار بناتا ہوں، میری کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے دل جیتوں نہ کہ اُن کی جیبیں“ اور حقیقت میں علی اکبر نے لوگوں کے دل جیتے ہیں۔
علی اکبر نے نہ صرف فرانسیسی حکومت کا بھی دل جیت لیا ہے بلکہ وہ ایک ختم ہوتی روایت کے آخری محافظ ہیں۔
سن 1970 کی دہائی میں ہی پیرس میں سڑک کنارے اخبار فروشوں کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ٹی وی نے خبر کا ذریعہ بدل دیا تھا اور اب انٹرنیٹ نے تو چھاپے گئے اخبار کو تقریباً ناپید کر دیا ہے لیکن علی اکبر جو اب ”پیرس کے آخری اخبار فروش“ سمجھے جاتے ہیں، اب بھی اسی جذبے سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے اخبارات میں ان کی تصاویر شائع ہوئی ہیں۔
علی اکبر کی کاغذ سے محبت آج بھی قائم ہے، وہ کاغذ کی خوشبو کو پیرس کی خوشبو سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ “مجھے کاغذ کی خوشبو اور لمس پسند ہے۔ مجھے ٹیبلیٹ یا اس قسم کی چیزیں نہیں بھاتیں لیکن پڑھنے کا شوق ہے، جو بھی ہو مگر اصلی کتاب ہو، اسکرین پر کبھی نہیں لیکن وہ بدلتے وقت کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ کام مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
علی اکبر کے مطابق وہ 8 گھنٹے میں مشکل سے لی مونڈے (Le Monde) کے 20 اخبار بیچ پاتے ہیں۔ ان کے بقول سب کچھ ڈیجیٹل ہو چکا ہے اور لوگ اب اخبار نہیں خریدتے۔
علی اکبر کی کہانی صرف ایک محنتی مزدور کی داستان نہیں ہے بلکہ یہ ”استقامت، انضمام اور انسان دوستی“ کی علامت ہے، پیرس جیسے شہر میں جہاں بعض اوقات غیرملکیوں کو اجنبی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، علی اکبر نے اپنی سچائی، خلوص اور مزاحیہ انداز سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔
ان کا مجوزہ اعزاز نہ صرف ان کی طویل پیشہ ورانہ زندگی کا اعتراف ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک تارک وطن شخص، اپنی سچائی کے ساتھ، ایک غیرملکی سرزمین پر بھی دلوں پر راج کر سکتا ہے۔
فرانس جیسے ملک میں جہاں شناخت، ثقافت اور قومیت کے مسائل پر آئے روز مباحثے ہوتے ہیں، علی اکبر کی شخصیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسانی رشتے، محنت اور مسکراہٹ ہر سرحد سے بالاتر ہوتے ہیں۔
پیرس کی گلیوں میں مسکراتا ہوا ایک پاکستانی جسے اب فرانس کا سب سے بڑا سول اعزاز ملنے جا رہا ہے، علی اکبر ایک کہانی، جذبے، وفاداری اور انسان دوستی کی مثال ہے، جس نے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔