تیجس کی پرواز، ’وشو گرو‘ کا غرور ایک لمحہ میں زمین بوس

ڈیمو ہی اگر آخری پرواز بن جائے تو سودا کون کرے گا؟
شائع 23 نومبر 2025 10:21am

دبئی ایئر شو میں اس دن دھوپ معمول سے زیادہ تیز نہیں تھی، لیکن بھارتیوں کے غرور نے فضا میں ایسی گرمی ضرور پھیلائی ہوئی تھی جیسے ابھی کسی بھی لمحے ’’وشو گرو‘‘ کی کوئی نئی ایجاد آسمان چیر کر نکلنے والی ہو۔ اسٹیج کے پیچھے بھارتی میڈیا کا ہجوم تھا، ہاتھوں میں مائیک، چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ اور جملوں میں وہی پرانا غرور… ’’تیجس، بھارت کی شہ رگ، بھارت کا فخر، بھارت کی شان‘‘۔

اور سامنے رن وے پر کھڑا وہی طیارہ، جسے بھارت نے دنیا کے سامنے ایسے پیش کرنا تھا جیسے نیوکلئیر سائنسٹست ابھی اس کے پنکھوں سے نکل کر ہاتھ ہلائیں گے۔

طیارہ دوڑتا ہوا آسمان میں بلند ہوا، بھارتی وزراء کی آنکھوں میں چمک، مودی کے چہرے پر وہی مخصوص مسکراہٹ اور بھارتی میڈیا کے کیمرے خوشی سے کانپتے ہوئے۔ ’’بھارت کی فتح! بھارت کی ٹیکنالوجی! بھارت کا مستقبل!‘‘ ہر طرف ایسے نعرے گونج رہے تھے جیسے اب اگلے سال ناسا کا نام بدل کر ’’پیشا‘‘ رکھ دیا جائے گا۔

لیکن ہوا وہ جو ہمیشہ غرور کے ساتھ ہوتا ہے۔ آسمان نے فیصلہ کردیا کہ آج صرف طیارہ نہیں، کسی اور چیز کو بھی نیچے لانا ہے۔

چند لمحے بعد تیجس ایک عجیب زاویے پر جھکا۔ لوگ سمجھ رہے تھے یہ بھی کوئی کرتب ہے۔ بھارتی اینکرز نے فوراً لمحہ ضائع کیے بغیر تبصرہ شروع کردیا: ’’یہ دیکھیے! دنیا میں ایسا مینوور کسی لڑاکا طیارے نے پہلے نہیں کیا!‘‘

لیکن وہ مینوور تھا ہی نہیں، وہ تو ’’بھئی بس اب اور نہیں‘‘ والا لمحہ تھا۔

تیجس نے آسمان پر ایک آخری دھماکے دار حلقہ بنایا اور اگلے ہی لمحے آگ کے گولے میں بدل کر زمین کی طرف جھپٹا۔ دھماکے کی آواز خاموشی کو چیرتی ہوئی پورے ایئر شو میں پھیل گئی۔ چند سیکنڈ پہلے تک جو طیارہ بھارت کی شہرت اور ٹیکنالوجی کا تاج پہنے گھوم رہا تھا، وہ اب ایک دھواں بنتا ہوا زمین پر بکھر چکا تھا۔

AAJ News Whatsapp

سب سے افسوسناک بات یہ کہ پائلٹ بھی جاں بحق ہوچکا تھا، اور یہی وہ لمحہ تھا جب جشن ماتم میں بدل گیا۔

بھارتی میڈیا جو چند منٹ پہلے تک ’’وشو گرو‘‘ کی بینڈ پر ناچ رہا تھا، اچانک ایسے خاموش ہوا جیسے کسی نے ان کے مائیک ہی بند کردیے ہوں۔ وزراء کے چہروں پر وہی شرمندہ مسکراہٹ جو ہر ایسی صورتحال میں مجبوری کے ساتھ لگانی پڑتی ہے۔ اور مودی…؟ بس مسکراہٹ کے نیچے چھپائے گئے جھنجلاہٹ کے سائے ہر طرف نظر آرہے تھے۔

یوں صرف ایک طیارہ نہیں گرا، تقریباً 600 کروڑ روپے کا گاڑھا دھواں دبئی کے آسمان میں پھیل چکا تھا۔ یعنی اتنی رقم میں تو پاکستان کا آدھا شہر صاف پانی سے بھر جائے یا کم از کم بیس کلومیٹر سڑکیں بغیر کھدائی کے مکمل ضرور ہوجائیں۔

جوں ہی دھواں اٹھا، بھارتی دفاعی ماہرین کی میزوں پر فائلیں گرنا شروع ہوگئیں۔ بھارت کے دفاعی ہوابازی کے ادارے HAL اور ADA، جنہیں بھارتی حکومت ہر سال تعریفوں کے پھولوں سے نوازتی ہے، اب مشکل سوالوں کے چہرے دیکھ رہے تھے۔

آخر یہ طیارہ جسے بھارت ’’اگلی نسل کا جنگجو‘‘ کہہ کر بیچنا چاہتا تھا، وہ کرتب دکھاتے ہی بکھر کیوں گیا؟

دنیا بھر کی دفاعی مارکیٹ میں تیجس کی ساکھ پر جو آخری دھاگہ بچا تھا، وہ بھی اس دھماکے کے ساتھ ٹوٹ گیا۔

جس ملک کو بھارت تیجس بیچنا چاہتا تھا، انہیں اب یقین آگیا کہ یہ طیارہ ’’اڑنے سے زیادہ گرنے‘‘ کی شہرت رکھتا ہے۔

پاکستان میں تو لوگ مذاق میں اسے ’’تیجس: ٹیک آف کر کے تجھے ہی جَس‘‘ کہہ رہے ہیں۔

اب آتے ہیں پاکستانی تناظر پر۔

پاکستانی سوشل میڈیا اس حادثے کے بعد ایسے سرگرم ہوا جیسے کرکٹ میں بھارت کو ہرا کر فائنل کھیلنے جا رہے ہوں۔

لوگوں نے میمز کی گولہ باری شروع کردی۔

’’بھارت کا فخر دبئی میں بے فخر ہوگیا‘‘

’’مودی جی، یہ طیارہ بنایا تھا یا دیوالی کی پٹاخہ مشین؟‘‘

’’تیجس: ہلکا پھلکا طیارہ، جس کا وزن غرور سے زیادہ کچھ نہیں‘‘

ہمارے دفاعی ماہرین کے لیے یہ حادثہ حیران کن نہیں تھا۔ وہ پہلے ہی بھارت کے خودساختہ دعوؤں کو ’’کہانی کا حصہ‘‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ بھارت نے جب بھی تیجس کو ’’جنریشن 4++‘‘ کہا، پاکستانی ماہرین نے مسکرا کر کہا: ’’بھائی ریلوے اسٹیشن کی بوگی پر ++ لگا دینے سے وہ راکٹ نہیں بن جاتی۔‘‘

لیکن یہاں طنز اپنی جگہ، حادثہ المناک تھا۔ انسانی جان کا ضیاع کسی مذاق کا موضوع نہیں، مگر ٹیکنالوجی پر جھوٹا غرور ہمیشہ اپنا انجام دکھاتا ہے۔

مودی حکومت نے اس طیارے کو عالمی مارکیٹ میں دھکیلنے کے لیے خاصی محنت کی تھی۔ گھنٹوں کی پریس کانفرنسیں، لمبے دعوے، ’’میک ان انڈیا‘‘ کی شہنائی، ’’وشو گرو‘‘ کا نغمہ، اور دنیا کے سامنے ٹیکنالوجی کا وہ دکھاوا جس کا حقیقت سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا بالی ووڈ کی ایکشن فلم کا حقیقی سائنس سے۔

حادثے نے اس پورے بیانیے کو دھماکے کے ساتھ نیچے گرا دیا۔

بھارت کی امید تھی کہ تیجس مستقبل میں بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ ہوگا، لیکن اب تو شاید کوئی چھوٹا ملک بھی اس کی ’’ڈیمو فلائٹ‘‘ دیکھنے نہ آئے۔

کیونکہ ڈیمو ہی اگر آخری پرواز بن جائے تو سودا کون کرے گا؟

پاکستانیوں نے اس حادثے کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا۔ ’’بھائی، شکر ہے کہ بھارت نے خود ہی اپنے غرور کو تباہ کیا، ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘

یوں سمجھ لیں کہ بھارت نے اپنے سب سے پروموٹڈ لڑاکا طیارے کے ساتھ خود ہی وہ کیا جو اکثر پاکستانی میمز میں ہوتا ہے۔

یہ واقعہ صرف ایک حادثہ نہیں، ایک علامت ہے۔

علامت اس جھوٹے فخر کی جو بھارت ہر دفاعی پراڈکٹ کے ساتھ نتھی کر دیتا ہے۔

علامت اس سیاست کی جو حقیقت سے زیادہ نعرے بیچتی ہے۔

علامت اس سوچ کی جو ٹیکنالوجی کو لیڈروں کی سیلفی کا پس منظر بنا دیتی ہے۔

اور علامت اس حقیقت کی کہ آسمان غرور برداشت نہیں کرتا، چاہے وہ کسی بھی ملک کا کیوں نہ ہو۔

آخر میں، پاکستان میں بیٹھے کئی تجزیہ کاروں نے ایک جملہ بالکل درست کہا: ’’یہ حادثہ بھارت کے لیے سبق ہے کہ دفاع صرف شور مچانے سے نہیں بنتا، محنت، حقیقت پسندی اور زمینی سچائیوں سے بنتا ہے۔‘‘

اور واقعی، سبق تو ہے ، لیکن یہ سبق کون پڑھے گا؟

بھارت میں تو اب بھی کوشش یہی ہے کہ دھواں چھپ جائے، حقیقت مٹ جائے، اور اگلے سال پھر ٹی وی پر نیا دعویٰ چلا دیا جائے:

’’تیجس مارک-2 آ رہا ہے… دنیا تیار رہے!‘‘

بھئی، دنیا تو تیار ہے۔

اصل سوال یہ ہے:

کیا تیجس تیار ہے ؟

Tejas crash Dubai Airshow

Tejas negative G manoeuvre

Tejas crash