کراچی میں چالان کرنے والے روبوٹ لانے کی تیاری، گڑھوں اور چرسیوں سے اُنہیں کون بچائے گا؟
بھاری بھرکم چالان سے نالاں شہر قائد کے باسی ابھی ان ای چالان سے صحیح طریقے سے آشنا بھی نہ ہوئے تھے کہ اب وہ جلد ہی سڑکوں پر روبوٹ کو ٹریفک پولیس کے روپ میں دیکھیں گے، جو ان کے چالان کریں گے۔
جی ہاں، یہ بات کوئی بے پر کی نہیں بلکہ جلد حقیقت بننے جا رہی ہے۔ اس کا باضابطہ اعلان ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں ای چالان کے لیے ایک نیا طریقہ متعارف کرایا جا رہا ہے اور وہ روبوٹک نظام کے ذریعے ہوگا۔ آئندہ ماہ سے مختلف سڑکوں پر نو پارکنگ اور نو ٹو لین کے بورڈز نصب کیے جائیں گے اور صدر، طارق روڈ سمیت اہم سڑکوں پر روبوٹ چلیں گے۔
ان روبوٹس کی اسپیڈ 20 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی، یہ چلتے ہوئے گاڑیوں کو اسکین کریں گے اور جو بھی گاڑی پارکنگ یا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث ہوگی، اس کی رپورٹ تیار ہوگی جس کے بعد شہریوں کو ای چالان بھیجا جائے گا۔
ٹوٹتی سڑکیں اور ناکافی بنیادی ڈھانچہ
کراچی کے بیشتر علاقوں میں اگر کوئی چیز بار بار بنتی اور ٹوٹتی ہے تو وہ سڑک ہے۔ نئی سڑک چند دن بعد دوبارہ کھود دی جاتی ہے تاکہ کسی محکمہ کی گیس یا پانی کی لائن ڈالی جا سکے۔ یہ مسئلہ برسوں سے جاری ہے اور شہری اب سوال کرتے ہیں کہ کیا ترقی کا مطلب صرف کھدائی کے نئے مواقع پیدا کرنا رہ گیا ہے؟
شہر کے کئی علاقوں میں سڑک پر سفر ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ڈرائیور کبھی دائیں پہیے کو گڑھے سے بچاتا ہے، کبھی بائیں کو۔ ایسے میں اگر روبوٹ چالان کرنے نکلے تو سب سے پہلے اسے خود پر چالان کرنا چاہیے، ”خلاف ورزی، گڑھے میں گرنے کی کوشش!“
یہ صورتحال اس بات کا عندیہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اپنانے سے پہلے بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہونا ضروری ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کا تجربہ
دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں روبوٹک نگرانی عام ہو چکی ہے۔ چین، دبئی اور سنگاپور جیسے ممالک میں ٹریفک کنٹرول مکمل طور پر خودکار نظام کے تحت ہے۔ مگر وہاں کے بنیادی ڈھانچے مضبوط اور منظم ہیں، یعنی سڑکیں، سگنل، کیمرے اور انتظامی نظام مکمل اور قابلِ اعتبار ہیں۔
کراچی میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اکثر نظام کی بنیاد درست کیے بغیر جدید ٹیکنالوجی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ روبوٹ آئیں یا نہ آئیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہمارا شہر اس نظام کے لیے تیار بھی ہے؟ کیا سڑکیں، سگنل اور کیمرے اتنی حالت میں ہیں کہ خودکار نظام مؤثر طریقے سے کام کر سکے؟ اگر نہیں، تو یہ منصوبہ بھی شاید چند ہفتوں کا پائلٹ پروجیکٹ بن کر رہ جائے۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور شہری ردعمل
کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے۔ قانون کا نفاذ ضروری ہے، مگر قانون اُس وقت مؤثر ہوتا ہے جب سہولت پہلے اور سزا بعد میں دی جائے۔ بدقسمتی سے یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے، سڑکیں نامکمل، اشارے خراب اور نظام غیر فعال، مگر چالان بروقت جاری ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ قانون صرف اُس وقت قابلِ احترام بنتا ہے جب وہ سب پر یکساں لاگو ہو۔ بغیر نمبر پلیٹ یا کالے شیشوں والی گاڑیاں نظام کی نظروں سے بچ نکلتی ہیں، لیکن عام شہری کا چالان ہمیشہ وقت پر پہنچتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا روبوٹک نظام اس امتیاز کو ختم کر پائے گا، یا وہ بھی اسی روایتی فرق کا حصہ بن جائے گا؟
نظم و ضبط کا اصل چہرہ
نظم و ضبط صرف چالان سے پیدا نہیں ہوتا۔ یہ اداروں کے طرزِ عمل سے جنم لیتا ہے۔ اگر:
سڑکیں وقت پر مرمت ہوں
کھدائی سے پہلے منصوبہ بندی کی جائے
سگنل باقاعدگی سے کام کریں
شہری سہولتوں کو ترجیح دی جائے
تو شاید کسی روبوٹک چالان سسٹم کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
لیکن کراچی میں اصلاح کے بجائے تنقیدکا تاثر زیادہ نمایاں ہے۔ روبوٹ خرید لینا آسان ہے، مگر اداروں کو جواب دہ بنانا سب سے مشکل کام ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم اصل مسائل کے حل کے بجائے ان کا تکنیکی پردہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔
ٹریفک اور شہری زندگی کی حقیقت
کراچی کے شہریوں کے لیے ٹریفک صرف روزمرہ کا کام نہیں بلکہ ایک روزانہ کا امتحان ہے۔ بارش میں پانی، دھوپ میں گرد، اور رات کو اندھیرا، ہر موسم میں سفر ایک آزمائش ہے۔ ایسے میں اگر کوئی گاڑی چند انچ آگے نکل جائے تو کیا یہ نظم کی خلاف ورزی ہے یا بقا کی کوشش؟
شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت روبوٹ بھیجنا چاہتی ہے تو پہلے وہ روبوٹ بھیجے جو:
گڑھے بھریں
پانی کی لائنیں درست کریں
سگنل وقت پر چلائیں
جب بنیادی ڈھانچہ درست ہو جائے، تو چاہے چالان روبوٹ کریں یا اہلکار، فرق نہیں پڑے گا۔
ای چالان روبوٹ سسٹم: جدید قدم، لیکن محدود افادیت
ای چالان روبوٹ سسٹم بلاشبہ جدید قدم ہے اور اس کا مقصد شہری نظم و ضبط قائم کرنا ہے۔ تاہم، کسی بھی نظام کی کامیابی کا دار و مدار اطلاقی ماحول پر ہوتا ہے۔ اگر شہر کی سڑکیں، ادارے اور بنیادی ڈھانچہ درست نہ ہو، تو جدید ترین نظام بھی اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔
کراچی کو روبوٹ نہیں، ذمہ دار ادارے اور پائیدار سڑکیں درکار ہیں۔ حقیقی ”ای انقلاب“ وہی ہو گا جب شہریوں کو سہولت پہلے اور سزا بعد میں ملے۔ تب ہی یہ نظام محض ایک منصوبہ نہیں بلکہ اصلاح کی حقیقی علامت بن سکے گا۔
ہماری ناقص تجاویز اور حل
بنیادی ڈھانچہ مضبوط کریں، سڑکوں کی مرمت، سگنلز کی بحالی اور فٹ پاتھوں کی صفائی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
شہری سہولت کو ترجیح دیں، چالان کے پہلے شہری کو سہولت فراہم کرنا ضروری ہے، مثلاً صاف راستے اور فعال سگنل۔
ای چالان کو مرحلہ وار نافذ کریں، پہلے چند مرکزی علاقوں میں پائلٹ پروجیکٹ چلائیں، پھر شہر کے دیگر حصوں میں توسیع کریں۔
ٹیکنالوجی کے ساتھ تربیت اور آگاہی، شہریوں کو نئے نظام کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ وہ روبوٹک چالان کے طریقہ کار سے واقف ہوں۔
اداروں کو جواب دہ بنائیں، سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کی ناکامیوں کے ذمہ دار اداروں پر سخت کارروائی کی جائے تاکہ اصلاح حقیقی ہو۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

















