Aaj News

کیا ٹرمپ امن کے لیے سنجیدہ ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے بعد غزہ میں بندوقیں وقتی طور پر خاموش ہو گئی ہیں مگر فضا میں اب بھی بارود کی بو باقی ہے۔
شائع 25 اکتوبر 2025 04:33pm

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے بعد غزہ میں بندوقیں وقتی طور پر خاموش ہو گئی ہیں مگر فضا میں اب بھی بارود کی بو باقی ہے۔ اسرائیل اسے جنگ بندی کہتا ہے، حماس اسے سانس لینے کا موقع اور امریکا اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیتا ہے۔ لیکن سوال وہی ہے جو ہر بار اٹھتا ہے، کیا یہ واقعی امن ہے یا ایک سیاسی وقفہ؟ صدر ٹرمپ کے تازہ بیانات نے اس سوال کو اور گہرا کر دیا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ “ہم دونوں فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا موقع دے رہے ہیں، لیکن اگر امن نہ ہوا تو نتائج کے ذمے دار وہ خود ہوں گے۔” بظاہر یہ ایک متوازن جملہ لگتا ہے، مگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں توازن نہیں، حکم کا لہجہ چھپا ہے۔ وہ ثالث کے بجائے نگران کی طرح بول رہے تھے، جیسے امن کسی اخلاقی اصول نہیں بلکہ سیاسی ضرورت کا نام ہو۔

یہ امریکی سفارت کاری کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ امن ان کے نزدیک کوئی اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ ایک تصویر ہوتی ہے، جس میں امریکی صدر مسکراتے ہوئے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور سامنے مصافحہ کرتی ہوئی دو تھکی ہوئی قیادتیں۔ اس تصویر کے فریم سے باہر ملبے کے ڈھیر، اسپتالوں کے کھنڈر اور بے گھر بچوں کی تصویریں کبھی نہیں دکھائی دیتیں۔ ہر بار جنگ بندی ہوتی ہے اور ہر بار اس کے چند دن بعد اسرائیلی طیارے پھر آسمان پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

دنیا میں شاید سب سے کمزور وعدہ اسرائیلی یقین دہانی ہے۔ ماضی کی ہر جنگ بندی کے بعد پہلی خلاف ورزی ہمیشہ انہی کی جانب سے آتی ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ “دفاعی کارروائی تھی”، کبھی یہ کہ “دہشت گردی کے اڈے پر حملہ کیا گیا۔”

اسرائیل کے نزدیک دفاع کا مطلب دوسروں کا نقصان ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہوں یا انسانی حقوق کی رپورٹس، اسرائیل کے رویے پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جب امریکا خاموش رہتا ہے، تو یہ خاموشی دراصل حمایت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

ٹرمپ کے حالیہ بیانات میں بھی یہی خاموش حمایت جھلکتی ہے۔ وہ دونوں فریقوں کو برابر ٹھہراتے ہیں، مگر اصل مخاطب سب کو معلوم ہے۔ حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے جو زبان استعمال کی گئی وہ کسی ثالث کی نہیں بلکہ ایک طاقت ور حلیف کی زبان تھی۔ امریکا کی نظر میں اسرائیل ایک دفاعی ریاست ہے اور حماس ایک خطرہ۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے امن کی کوششوں کو کمزور کیا۔

حماس کے لیے مغربی دنیا کی ہمدردی پہلے ہی محدود ہے۔ اس کی مزاحمت کو ہمیشہ دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے، چاہے پس منظر کچھ بھی ہو۔ جب اسرائیل بمباری کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حماس نے اشتعال دلایا اور جب حماس خاموش ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کی نیت پر شک ہے۔ یعنی جرم کا تعین کمزور کی حیثیت سے ہوتا ہے، حقائق سے نہیں۔

غزہ میں آج بھی درندگی کی فضا قائم ہے۔ اسپتالوں میں بجلی نہیں، پینے کا پانی نایاب ہے اور ہزاروں خاندان ملبے پر بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ کا یہ کہنا کہ “یہ وقت امن کا ہے”، ایک سفارتی جملہ کم، طنزیہ فقرہ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ جیسے کسی جلتے گھر کے باہر کھڑا شخص ایک گلاس پانی دکھا کر کہے، “میں نے اپنا حصہ ڈال دیا۔”

ٹرمپ کی سیاست میں تضاد نیا نہیں۔ وہ ایک طرف جنگوں کے خاتمے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ہتھیاروں کی فروخت پر فخر کرتے ہیں۔ وہ امن کے داعی بن کر سامنے آتے ہیں مگر ان کے الفاظ میں طاقت کی بو ہوتی ہے۔ وہ خود کو ثالث کہتے ہیں مگر ان کے فیصلے ہمیشہ ایک فریق کے حق میں ہوتے ہیں۔ یہی تضاد غزہ سے متعلق ان کے حالیہ بیانات اور روس یوکرین جنگ رکوانے کے لیے ان کی کوششوں میں نمایاں ہیں۔

صدر ٹرمپ کے نزدیک مشرقِ وسطیٰ کوئی انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اسٹیج ہے جہاں وہ مرکزی کردار ہیں۔ ان کی ہر تقریر، ہر اعلان، اور ہر “امن معاہدہ” دراصل ایک انتخابی نعرے کی شکل رکھتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تاریخ انہیں امن لانے والے رہنما کے طور پر یاد رکھے، مگر حقیقت میں ان کے فیصلوں نے صرف وقفے دیے، حل نہیں۔

امن کے لیے سب سے پہلی شرط اعتماد ہے اور یہی چیز اس پورے عمل سے غائب ہے۔ اسرائیل پر اعتماد ایک خواب بن چکا ہے۔ حماس پر دباؤ بڑھا کر امن نہیں لایا جا سکتا اور ٹرمپ کے متضاد بیانات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکا کا کردار غیر جانب دار نہیں رہا۔ ان کے الفاظ میں توازن دکھانے کی کوشش ضرور تھی، مگر مفہوم میں جھکاؤ اتنا نمایاں کہ چھپایا نہیں جا سکتا۔

سب جانتے ہیں کہ جب طاقت ور ملک امن کی بات کرتا ہے تو اصل مقصد امن نہیں، حالات کو اپنے مفاد کے مطابق منجمد کرنا ہوتا ہے۔

اسرائیل پر اعتماد ممکن نہیں، حماس کو دھمکیاں امن کی ضمانت نہیں، اور ٹرمپ کی ثالثی مخلص نہیں۔ یہ تینوں حقیقتیں اس جنگ بندی کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہیں۔ آج اگر گولیاں رکی ہیں تو کل دوبارہ چلیں گی، کیوں کہ مسئلہ جنگ کا نہیں، انصاف کا ہے۔ جب انصاف نہیں ہوگا، تو امن صرف ایک لفظ رہ جائے گا۔

دنیا اگر واقعی سکون چاہتی ہے تو اسے توازن کے پردے میں چھپے تعصب کو پہچاننا ہوگا۔ امن کی راہ دباؤ سے نہیں، انصاف سے نکلتی ہے۔ جب ثالث خود فریق بن جائے تو امن کے نام پر صرف تصویریں چھپتی ہیں، سکون نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج جب غزہ پر خاموشی چھائی ہے تو یہ سکون نہیں بلکہ تھکن ہے۔ یہ امن نہیں بلکہ وقفہ ہے۔ اور ٹرمپ کے بیانات نے اس وقفے کو مزید بے معنی کر دیا ہے۔ دنیا شاید کچھ وقت کے لیے سانس لے، مگر دلوں میں جو بداعتمادی جاگ چکی ہے، وہ اب کسی سیاسی بیان سے ختم نہیں ہوگی۔

نوٹ: لکھاری کی آرا سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔