کتاب یا ڈیجیٹل میڈیا؟ علم کی دنیا میں نئی کشمکش
انسانی تاریخ کے سفر میں علم ہمیشہ سے روشنی کی مانند رہا ہے۔ کبھی یہ روشنی چراغ اور قلم کی صورت میں جھلملائی، تو کبھی کتب خانوں کے انبار میں، مگر اکیسویں صدی میں جب ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لیا تو علم کی دنیا بھی اس سے نہ بچ سکی۔ آج سوال یہ ہے کہ کیا اصل علم اب بھی کتابوں میں ہے یا ڈیجیٹل میڈیا نے اس کی جگہ لے لی ہے؟
کتاب صرف کاغذ پر چھپے لفظوں کا نام نہیں بلکہ احساس اور تعلق کا نام ہے۔ کتاب کھولنے پر آنے والی خوشبو، ورق پلٹنے کی آواز اور ہاتھوں میں پکڑنے کا سکون، وہ کیفیت ہے جسے کوئی موبائل اسکرین یا ای-بک کبھی نہیں دے سکتی۔ صدیوں تک انسان نے اپنی تہذیب، تاریخ اور سائنس کے راز کتابوں کے ذریعے ہی محفوظ کیے۔
آج کے دور میں جب ہر چیز ایک کلک پر دستیاب ہے، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کتابوں کی اہمیت ختم ہو رہی ہے؟ یا پھر ڈیجیٹل میڈیا کی چمک دمک کے باوجود کتابیں اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں؟ یہ بحث صرف شوقیہ مطالعے تک محدود نہیں بلکہ تعلیم، تحقیق اور حتیٰ کہ ہماری سماجی زندگی تک پھیلی ہوئی ہے۔
انسانی تاریخ میں کتاب نے علم کو محفوظ کرنے اور آگے بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ فراہم کیا۔ صدیوں تک کاغذی کتاب ہی وہ طاقت تھی جس نے تہذیبوں کو ترقی دی۔ مگر اب انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ اب مطالعہ محض کتابوں تک محدود نہیں رہا کیوں کہ پڑھنے کے لیے ای بکس بھی دستیاب ہیں۔
آڈیو بکس نے مصروف لوگوں کے لیے پڑھنے کا آسان متبادل دیا۔ یوٹیوب اور بلاگز نے علم کو ویڈیو اور آرٹیکل کی صورت میں عام کر دیا اور سوشل میڈیا نے کتاب کے مقابلے میں علم کو فوری اور مختصر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل کا جھکاؤ کتاب کے بجائے ڈیجیٹل اسکرین کی طرف بڑھ گیا ہے۔
ڈیجیٹل ذرائع کی مقبولیت کی بڑی وجوہات اس کی آسان رسائی، وقت کی بچت، کم خرچ ہے۔ موبائل یا لیپ ٹاپ پر سیکڑوں کتب ایک ہی جگہ باآسانی مل جاتی ہیں، سرچ کے ذریعے فوری مواد حاصل ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں انٹرایکٹو انداز میں ویڈیوز، تصاویر اور گرافکس علم کو مزید دلچسپ بناتے ہیں۔
اس سب کے باوجود کتاب کی اہمیت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کیوں کہ کتاب پڑھنے سے جو توجہ اور یکسوئی پیدا ہوتی ہے وہ ڈیجیٹل ذرائع میں نہیں ملتی۔
کاغذ کی خوشبو اور ورق پلٹنے کا احساس ایک الگ لذت ہے، تحقیق اور گہری تعلیم کے لیے اب بھی زیادہ تر معتبر حوالہ کتاب ہی ہے۔ یہی نہیں کئی مطالعات کے مطابق کتاب سے پڑھنے والا طالب علم زیادہ بہتر یاد رکھتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ڈیجیٹل میڈیا کے جہاں فائدے ہیں وہیں کئی نقصانات بھی ہیں۔ ایک بڑا نقصان ذہنی صحت کا ہے جو زیادہ اسکرین ٹائم کی وجہ سے پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن معلومات کا معیار ہمیشہ قابلِ بھروسہ نہیں ہوتا اور ہر چیز فوری ملنے کی عادت شارٹ اٹینشن اسپین کو گہرا کرتی ہے۔
پاکستان میں جنوری 2025 تک 116 ملین انٹرنیٹ صارفین اور تقریباً 67 ملین سوشل میڈیا یوزرز ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ مطالعہ اور معلومات کا بڑا حصہ اب ڈیجیٹل ذرائع سے جڑ چکا ہے۔
آج کی دنیا میں یہ سوال باقی نہیں رہا کہ کتاب اور ڈیجیٹل میڈیا میں سے کون بہتر ہے، اصل سوال یہ ہے کہ دونوں کو کس طرح ساتھ لے کر چلا جائے؟
یونیورسٹیز اب ڈیجیٹل لائبریریوں اور پرنٹ کتب کو یکجا کر رہی ہیں۔ طلبہ ایک طرف کلاسک کتابیں پڑھتے ہیں اور دوسری طرف جدید مواد آن لائن دیکھتے ہیں۔ آن لائن کورسز کے ساتھ ریفرنس بکس کا مطالعہ اب ایک نیا معیار بن رہا ہے۔
کتاب اور ڈیجیٹل میڈیا دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ اگر کتابیں یکسوئی اور گہرائی دیتی ہیں تو ڈیجیٹل میڈیا وقت کی بچت اور آسان رسائی فراہم کرتا ہے۔ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ہم کتاب کی سنجیدگی اور ڈیجیٹل میڈیا کی سہولت کو ملا کر ایک متوازن مطالعہ اپنائیں۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔