Aaj News

ابراہیم تراورے: فوجی ڈکٹیٹر یا افریقہ کا ابھرتا ہوا انقلابی رہنما؟

برکینا فاسو کے شہریوں نے برسوں تک دہشت گردی، معاشی بدحالی اور سیاسی بدعنوانی کا سامنا کیا۔ ایسے میں ابراہیم تراورے نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف ملک کو بیرونی طاقتوں کے شکنجے سے آزاد بلکہ اندرونی طور پر بدعنوان نظام کا بھی خاتمہ کریں گے۔
شائع 27 ستمبر 2025 07:12pm

افریقی براعظم ہمیشہ آزادی، غلامی، نوآبادیاتی نظام اور انقلاب کی داستانوں سے جڑا رہا ہے۔ یورپی طاقتوں کے قبضے اور حکمرانی کے کھیل نے اس خطے کو صدیوں تک زنجیروں میں جکڑے رکھا اور اب ایک نوجوان فوجی ڈکٹیٹر ابراہیم تراورے کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد نوجوانوں میں امید پیدا ہوئی ہے کہ ان کے ملک کی تقدیر کا فیصلہ وہ خود لکھیں گے۔

افریقی ملک برکینا فاسو کے موجودہ صدر ابراہیم تراورے کا تعلق ایک عام کسان خاندان سے ہے، ان کی پرورش کسی بڑے سیاسی یا امیر گھرانے میں نہیں ہوئی۔ شاید یہی پس منظر ان کی عوامی سوچ اور نظریے کی بنیاد بنا۔

فوج میں شمولیت کے بعد انہوں نے تیزی سے ترقی کی اور قیادت کی صلاحیتوں سے اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ ان کی شخصیت میں سادگی اور خود اعتمادی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔

برکینا فاسو طویل عرصے سے بدامنی، دہشت گردی اور بدعنوانی کا شکار ملک رہا ہے جس کی وجہ وہاں کے عوام مشکل میں ہی رہے ہیں۔ ایسے میں لیفٹیننٹ کرنل ابراہیم تراورے نے نعرہ بلند کیا کہ ”ہمیں اپنے ملک کی حفاظت خود کرنی ہے، ہمیں اپنے وسائل پر حق خود جتانا ہے اور ہمیں اپنی قسمت خود لکھنی ہے۔“

تراورے کا یہ نعرہ سیدھا عوام کے دلوں میں اتر گیا اور انہوں نے اکتوبر 2022 میں صرف 34 سال کی عمر میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

یہ دنیا بھر میں غیر معمولی خبر تھی، کیوں کہ اتنی کم عمری میں کسی ملک کا سربراہ بننا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ مگر ان کا اقتدار میں آنا محض ایک فوجی سازش نہیں بلکہ شورش سے تنگ عوام کے لیے ایک امید بھی ہے۔

ابراہیم تراورے نے اقتدار پر قبضے کے بعد آئینی عمل اور جمہورت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا مگر انتخابی عمل مؤخر کر دیا تھا۔ فوجی حکومت نے الیکشن کرانے کے ادارے نیشنل الیکٹورل کمیشن کو ختم کر دیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ برکینا فاسو میں جمہوری کنٹرول کم ہو رہا ہے۔

ہر فوجی ڈکٹیٹر کی طرح تراورے نے بھی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کیے جس کے تحت مئی 2024 میں عبوری مدت کو مزید پانچ سال کے لیے توسیع دی گئی، جس کے تحت تراورے ملک کے صدر بن گئے۔

برکینا فاسو کے شہریوں نے برسوں تک دہشت گردی، معاشی بدحالی اور سیاسی بدعنوانی کا سامنا کیا تھا۔ ایسے میں تراورے نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف ملک کو بیرونی طاقتوں کے شکنجے سے آزاد کرائیں گے بلکہ اندرونی طور پر بھی بدعنوان نظام کا خاتمہ کریں گے۔

برکینا فاسو نے افریقی اقتصادی بلاک ECOWAS نامی تنظیم سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کے ساتھ فوجی معاہدے بھی ختم کر دیے ہیں۔ فوجی حکومت نے مغربی اثر و رسوخ سے دوری اختیار کی ہے اور روسی عسکری مدد کو ترجیح دی ہے۔

تراورے کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا بے باک اور دوٹوک انداز ہے۔ وہ عموماً اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ افریقی ممالک کو اب مغربی طاقتوں کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ برکینا فاسو اپنی سلامتی خود سنبھال سکتا ہے۔ ان کے اس طرح کے بیانات کو اگرچہ خطرناک سمجھا جا رہا تھا، لیکن عوامی حمایت اور ان کے عزم نے حالات کو ان کے حق میں کر دیا ہے۔

تراورے جب عوام سے خطاب کرتے ہیں تو ان کے الفاظ میں صرف سیاسی وعدے نہیں بلکہ ایک انقلابی جوش چھلکتا ہے۔ وہ نوجوانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ غلامی کی زنجیریں ہمیشہ توڑی جا سکتی ہیں، اگر قوم یکجا ہو کر اپنے وسائل پر قابض ہو۔ وہ مغرب کو للکارتے ہوئے یہ کہتے ہیں، “افریقہ اب کسی کا غلام نہیں رہے گا۔”

فوجی حکومت کے قیام کے بعد برکینا فاسو نے خطے میں اپنی خارجہ پالیسی کو بھی یکسر بدل لیا ہے۔ روس اور دیگر غیر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا تاکہ عسکری اور معاشی امداد ایسے ذرائع سے حاصل ہو جو استعماری عزائم سے پاک ہوں۔ اس اقدام نے مغربی دنیا کو چونکا دیا ہے کیوں کہ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ اب افریقہ نئے اتحادی بنانے کے لیے آزاد ہے۔

یقیناً تراورے کے اقدامات کو تنقید کا سامنا بھی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فوجی بغاوت کبھی بھی جمہوریت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ مخالفین کا خیال ہے کہ تراورے کی حکومت وقت کے ساتھ عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکی تو یہ انقلاب بھی ناکام ہو جائے گا۔ لیکن فی الحال حقیقت یہ ہے کہ برکینا فاسو کے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی حمایت نے انہیں ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ پورے افریقہ کے نوجوانوں کے لیے ایک علامت بن گئے ہیں۔

ابراہیم تراورے کا موازنہ برکینا فاسو کے سابق صدر اور انقلابی رہنما تھامس سنکارا سے کیا جا رہا ہے۔ سنکارا نے بھی نوجوانی میں اقتدار سنبھالا تھا اور ملک کو خود انحصاری کی راہ دکھائی تھی۔

اگر مستقبل کی طرف دیکھا جائے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ تراورے کتنی دیر تک اقتدار میں رہیں گے اور کیا وہ اپنے تمام وعدے پورے کر سکیں گے۔ مگر یہ حقیقت انکار کے قابل نہیں کہ انہوں نے ایک نئی سوچ کو جنم دیا ہے۔ وہ سوچ جس میں افریقہ مغربی طاقتوں کے سہارے کے بجائے اپنی قوت پر انحصار کرتا ہے۔ اگر یہ سوچ مضبوط ہوئی تو پورے براعظم میں ایک نئی بیداری کی لہر دوڑ سکتی ہے۔

Ibrahim Traore

Military dictator

or Africa's emerging

revolutionary leader?