Aaj News

راوی اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ: ’قدرت نے اپنی اینٹی انکروچمنٹ ڈرائیو شروع کر دی‘

حکومت نے دریائے راوی، ستلج اور چناب کے کنارے بسنے والوں کو حالیہ سیلاب کے پیش نظر نقل مکانی پر مجبور کر دیا
اپ ڈیٹ 28 اگست 2025 08:13pm

پاکستان کے مختلف علاقے ایک بار پھر شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہیں اور سب سے زیادہ متاثر وہ آبادیاں ہو رہی ہیں جو دریا کے کنارے واقع ہیں۔ انہی علاقوں میں چند سال قبل ماحولیاتی تحفظ اور جدید شہر کے وعدوں کے ساتھ راوی اربن منصوبے کا آغاز ہوا تھا، مگر آج یہ منصوبہ خود کئی سوالات کی زد میں ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان نے دو بڑے سیلاب2010 اور 2022 کا سامنا کیا، جن میں مجموعی طور پر 3500 سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ ہر بار سب سے زیادہ نقصان انہی لوگوں کو ہوا جو دریا کے قریب آبی گزرگاہوں کے آس پاس آباد تھے۔

رواں سال بھی صورتحال ماضی سے مختلف نہیں، دریائے راوی، ستلج اور چناب کے کنارے بسنے والے افراد حالیہ سیلاب کے پیش نظر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ دریائے راوی کی صورتحال خاص طور پر خطرناک ہے، جہاں پانی نے درجنوں بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اسی دریا کے کنارے سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے سال 2020 میں ایک نئے شہر بسانے کا اعلان کیا جسے پاکستان کا پہلا ’گرین اور اسمارٹ سٹی‘ قرار دیا گیا تھا۔

اس مجوزہ شہر کے لیے سابقہ حکومت نے باضابہ طور پر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا۔

راوی سٹی منصوبہ: وعدے، دعوے اور حقیقت

اس منصوبے کی کئی سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی اور مقامی کسانوں نے اس پروجیکٹ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔، جس پر عدالتت نے کسانوں کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو منصوبے پر کام کرنے سے روک دیا تھا۔

عدالت نے جنوری 2022 کو دریائے راوی کے کنارے پر نیا شہر بسانے کے منصوبے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ منصوبہ ماحولیاتی اثرات کے جامع تجزیے کے بغیر شروع کیا گیا تھا جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان نے خود دریائے راوی کے کنارے جا کر ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دریائے راوی سکڑ کر گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے، لہٰذا اس کے اطراف جدید شہر بسانا وقت کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

راوی سٹی منصوبے پر سوشل میڈیا پر بھی بھرپور تنقیدی ردِعمل سامنے آیا، جہاں مختلف صارفین نے اسے ماحولیاتی تباہی، سیاسی مفادات اور قانونی خلاف ورزیوں سے جڑا ایک متنازع منصوبہ قرار دیا۔

صحافی ماجد نظامی نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہاں فلیگ شپ پروگرام راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کون کون سی زمینیں سیلاب کی نذر ہو رہی ہیں، اس پر موجودہ و سابقہ حکومتیں خاموش ہیں، کیونکہ اس میں سب شریک ہیں۔

سوشل میڈیا صارف پروفیسر اسامہ صدیق نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ پنجاب کا اسپیشل پلاننگ قانون تاحال نافذ نہیں کیا گیا، جب کہ فلڈ پلینز مینجمنٹ قانون بھی ابھی تک نوٹیفائی نہیں ہوا۔ ان کے مطابق دریا کے راستے میں آبادیاں بسانا جرم ہے اور راوی اربن منصوبہ (روڈا) لالچ اور بدنیتی کی بدترین مثال ہے۔

اسامہ صدیق نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ اب قدرت نے خود انسدادِ تجاوزات مہم شروع کر دی ہے اور تمام ناجائز سوسائٹیاں بہہ جائیں گی۔

نجی ٹی وی کے ایک پروگرام کی میزبان ابصا کومل کا کہنا ہے کہ سیاسی لیڈران اور دیگر فیصلہ ساز ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کی سمجھ نہیں رکھتے یا دانستہ طور پر نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ دور اندیشی کی کمی ہے جو تمام فیصلہ سازی میں نظر آتی ہے۔

ابصا کومل کے مطابق راوی کے اطراف زرعی زمین پر بنائی ہاوسنگ سوسائٹیز گئی روڈا کی عمران خان رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کی طرح تشہیر کرتے رہے، موجودہ ن لیگی حکومت کی وزیراعلی مریم نواز نے روڈا پراجیکٹ میں آنے والی کچی آبادیوں کو منتقل کرنے کا ہی حکم دے دیا تاکہ پروجیکٹ آگے بڑھے اور پھر صحافیوں کو پلاٹ دیے۔

انھوں نے ’ایکس‘ پر اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ اس مسئلے پر صرف چند لوگوں نے آواز اٹھائی جیسا کہ صحافی بینظیر شاہ موحولیاتی ماہرین اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم جنہوں نے روڈا کے خلاف 25 جنوری 2022 کو فیصلہ دیا کہ “کوئی ماسٹر پلان موجود نہیں ،زمین کا حصول غیر قانونی ، ماحولیاتی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوئی۔“

سرکاری ٹی وی چینل (پی ٹی وی) نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر ایک ویڈیو شئیر کی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ دریائے راوی کے کنارے آباد لاہور کو بھی یوکو ہاما کی طرز پر ترقی دینا چاہتے ہیں۔

اگست 2025 کے اختتام پر دریا کنارے آبادیاں ایک بار پھر سیلاب کی زد میں ہیں، تو راوی اربن پروجیکٹ جیسے منصوبوں پر سوال دوبارہ کھڑا ہو رہا ہے کہ کیا یہ واقعی ماحولیاتی تحفظ کے لیے تھا یا صرف زمینوں کی بندربانٹ اور سیاسی مفادات کا ایک تجربہ؟ متاثرہ افراد کے لیے یہ وعدے اب صرف کاغذی دعوے محسوس ہوتے ہیں، جب کہ انہیں آج فوری تحفظ اور بحالی درکار ہے۔

بھارت سے آنے والے آبی ریلوں کے باعث راوی میں پانی کی سطح دو لاکھ کیوسک تک پہنچ چکی ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق شاہدرہ، بارہ دری اور ملحقہ علاقوں میں پانی داخل ہو چکا ہے۔ اب تک ایک درجن سے زاید اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔

climate crisis

Pakistan Floods

Environmental Justice

Monsoon 2025 Pakistan

anti encroachment drive

Ravi Urban Project

Floods 2025

Urban Planning Fail

Displaced Communities

Smart City Myth