کیا پاکستان ایک اور ’سپر فلڈ‘ کے لیے تیار ہے؟
بھارت نے بدھ کو دریائے راوی ستلج چناب میں لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ دیا ہے جس کے بعد پنجاب کے مختلف علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو نے سے 50 سے زائد دیہات زیرِ آب آ گئے ہیں۔
پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو ’سپر فلڈ‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سیلاب کے باعث ملک کو ماضی کی طرح سنگین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
موجودہ سیلاب کے باعث پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جب کہ کرتارپور گردوارے سمیت کئی اہم مقامات پانی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ دریائے ستلج اور راوی میں غیرمعمولی صورتحال کے باعث قریبی بستیاں دریا برد ہو گئیں اور رابطہ پل اور سڑکیں بہہ گئیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق دریائے چناب میں خانکی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 10 لاکھ کیوسک سے تجاوزکر چکا ہے جبکہ ہیڈ ورکس کی ڈیزائن کردہ گنجائش 8 لاکھ کیوسک ہے۔ شدید سیلابی ریلے کے باعث ہیڈ ورکس کے ہائیڈرولک ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا۔
ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا کے مطابق قادر آباد ہیڈ ورکس میں 9 لاکھ 43 ہزار کیوسک پانی کی آمد ہوئی ہے، جس کے پیش نظر رائٹ مارجنل بند میں بریچنگ کی گئی تاکہ آبپاشی اسٹرکچر کو بچایا جا سکے۔
اس ایمرجنسی صورتحال میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ پاک فوج امدادی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔
پاکستان ماضی میں بھی کئی بار قدرتی آفات کا شکار رہا ہے اور 1950 سے ابتک 29 بڑے سیلاب آ چکے ہیں جن میں سال 2010 اور 2022 کے بدترین سیلاب تھے جنھیں ’سپرفلڈ‘ کہا گیاتھا۔
’سپرفلڈ‘ ہوتا کیا ہے؟
سپر فلڈ ایک انتہائی شدت والا اور غیر معمولی سیلاب ہوتا ہے جو معمول کے سیلابوں سے کئی گنا زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہوتا ہے۔ اس میں دریا اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ پانی خارج کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، غیر متوقع مون سون بارشیں اور دریاؤں میں بے قابو پانی کی روانی سپر فلڈز کا باعث بنتی ہیں، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہو سکتے ہیں اور ملک کا زرعی و معاشی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق سپرفلڈ نہ صرف جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ صحت، خوراک، پانی اور توانائی جیسے اہم شعبوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
اگرچہ اس طرح کی قدرتی اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ابتدائی وارننگ سسٹمز جیسے اقدامات کیے ہیں، لیکن محدود آبی ذخائر، کمزور منصوبہ بندی، فنڈز کی کمی اور عوامی آگاہی کی سطح اب بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔
سینئر صحافی طلعت حسین نے بھارت کی جانب سے بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ایک سپر فلڈ آنے والا ہے جب یہ دریاؤں میں پانی سیلاب کی صورت اختیار کر رہا تھا تو کسی نے اس کا تجزیہ نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ اب ہم صرف چناب، راوی، ستلج اور جہلم میں خوفناک سیلابی صورت حال دیکھ رہے ہیں اور سندھ کے معاون دریاؤں میں سیلاب کی سطح بلند ہو چکی ہے۔ ہمیں شمالی علاقوں میں بھی ممکنہ سیلاب کی پیش گوئی کر دینی چاہیے۔
2010 اور 2022 کے سپر فلڈ میں کیا ہوا تھا؟
2010 کا سپرفلڈ پاکستان مین اب تک کی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب ثابت ہوا تھا۔ فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) کی رپورٹ کے مطابق اس سیلاب میں لگ بھگ 2 ہزار افراد جاں بحق اور ایک لاکھ 60 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا تھا۔
اس آفت نے ملک کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس میں انتظامی سہولتیں مفلوج اور بحالی کے عمل میں شدید رکاوٹیں پیش آئیں۔ سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرِ آب کیا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، زرعی زمینیں برباد، انفراسٹرکچر تباہ ہوا اور اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
این ڈی ایم کے کے تخمینے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، جہاں لاکھوں مکانات، پل اور سڑکیں تباہ ہوئیں۔ خیبر پختونخوا میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی، جب کہ سندھ، بلوچستان، اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
2010 کے سپر فلڈ کے 12 سال بعد 2022 میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دوبارہ شدید سیلاب آیا، جس نے سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع کو شدید متاثر کیا۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق اس سیلاب نے تین کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا، جن میں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے صوبے شامل تھے۔
سیلاب کے بعد حکومت کی جانب سے لگائے گئے تخمینے کے مطابق ایک ہزار 739 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں اور 14.9 بلین ڈالر کا مالی نقصان اور 15.2 بلین ڈالر کا اقتصادی نقصان پہنچا۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے۔
محکمہ موسمیات اور ماہرین کے مطابق، 2010 کا سیلاب ”دریائی سیلاب“ تھا، جب کہ 2022 میں آنے والے سیلاب کو ”فلیش فلڈ“ یا تیز اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے زمین کی گنجائش سے زیادہ پانی کا بہاؤ قرار دیا گیا۔
اس تباہ کن صورتحال کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجیلینا جولی نے بھی سندھ کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں اور آگاہی مہمات میں تعاون فراہم کیا۔
2022 کا سیلاب بھی ملک کی تاریخ کے بڑے قدرتی آفات میں سے ایک تھا، جس نے 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد دوبارہ ملک کو سنبھلنے کا موقع کم دیا۔
سینئر سیاستدان سید مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان جو کہ سب سے زیادہ حساس ممالک میں شامل ہے، سیلاب ایک معمول بنتا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایسے قدرتی آفات کے لیے پیشگی تیاری اور تحقیق کا کوئی باضابطہ کام نہیں کیا گیا، حالانکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر متعدد ادارے موجود ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ پنجاب کے تین دریائوں میں سیلابی صورتحال ہے، دریاؤں کی صورتحال کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے۔
ان کے بہ قول دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا، دریائے چناب میں مرالہ اور مرالہ سے ہیڈ خانکی کی طرف پانی کا بہاؤ بڑھ گیا ہے۔
پاکستان کا دریائی نظام اور سیلابی گزرگاہیں
پاکستان کا دریائی نظام بنیادی پانچ دریاؤں پر مشتمل ہے جو مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے بحیرہ عرب میں گرتے ہیں۔ دریائے ستلج بکرک سلمانکی، اسلام سے ہوتا ہوا پنجند تک پہنچتا ہے، جبکہ دریائے راوی جسار، شاہدرہ، بلوکی اور سدھنائی کے راستے گزر کر اپنے بہاؤ کو جاری رکھتا ہے۔
دریائے چناب مرالہ، خانکی، قادرآباد اور تریموں سے ہوتے ہوئے پنجند تک پہنچتا ہے اور دریائے جہلم منگلا سے شروع ہو کر رسول، تریموں اور پنجند سے ہوتا ہوا سندھ میں شامل ہوتا ہے۔
دریائے سندھ تربیلا سے شروع ہو کر کالا باغ، چشمہ، تونسہ، کوٹ مٹھن، گدو، سکھر اور کوٹری سے گزر کر بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اس میں دریائے کابل بھی شامل ہے۔ باقی دریا پنجند سے ہوتے ہوئے کوٹ مٹھن، گدو، سکھر اور کوٹری تک پہنچ کر اپنے سفر کا اختتام کرتے ہیں۔
یہ تمام دریا پاکستان کے اہم آبی ذرائع ہیں اور ان کی گزرگاہیں ہر سال بڑے پیمانے پر سیلابی اثرات کا سامنا کرتی ہیں۔
کیا پاکستان کو مزید ڈیموں کی ضرورت ہے؟
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی اور ڈیموں کی یکطرفہ تعمیر نے پاکستان کی آبی سلامتی کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، آبادی میں اضافہ اور پانی کی قلت جیسے چیلنجز کے پیش نظر، پاکستان میں ڈیموں کی اہمیت ماضی سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیموں نے ملک کی زرعی معیشت اور توانائی کی ضروریات کو سہارا دیا، لیکن اب ہر کچھ عرصے کے بعد آنے تباہ کن سیلاب ملک نئے آبی ذخائر بنانے کے تقاضا کرتے ہیں۔
شدید بارشوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور خشک سالی جیسے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ نہ صرف سیلابی پانی کو قابو میں رکھنے بلکہ زراعت اور شہری آبادیوں کو محفوظ بنانے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
ڈیمز کی ضرورت اور سیاسی مخالفت
پاکستان ایک زرعی ملک کا انحصار پانی پر ہے لیکن صوبوں کے درمیان ڈیمز بنانے پر کئی تنازعات ہیں۔ ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم وقت کی اہم ضروت ہے تاہم سیاسی اور بین الصوبائی اختلافات کے باعث یہ منصوبہ التوا کا شکار رہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے اب بھی دانشمندی اور اتفاقِ رائے سے فیصلے نہ کیے تو آنے والے برسوں میں سپر فلڈز صرف قدرتی آفات نہیں بلکہ ناقص حکمرانی کا شاخسانہ بن کر سامنے آئیں گے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے بھی منگل کے روز پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں اگلے سال سیلاب کی شدت 22 فیصد زیادہ ہو سکتی ہے، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات خطرناک ہیں۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔