ٹرمپ اور چین نے ایک دوسرے کو 90 دن کی مزید مہلت کیوں دی، ٹیرف جنگ بندی معاہدہ ٹوٹ گیا تو کیا ہوگا؟
امریکا اور چین کے درمیان جاری ”ٹیرف جنگ“ میں ایک اور عارضی وقفہ آ گیا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے بلند ترین درآمدی محصولات (ٹیرف) کو مزید 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا ہے، تاکہ مذاکرات کے ذریعے کسی جامع معاہدے تک پہنچا جا سکے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب تجارتی جنگ کے اثرات عالمی منڈیوں، صنعتوں اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں پر واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر سخت مؤقف اختیار کیا ہوا ہے، جس میں اب کچھ راحت دیکھنے کو ملی ہے۔
صدر ٹرمپ کا موقف تھا کہ چین غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں، ٹیکنالوجی چوری، اور امریکا کے لیے بڑے تجارتی خسارے کا ذمہ دار ہے۔
اس موقف کو جواز بنا کر ٹرمپ حکومت نے چینی مصنوعات پر 245 فیصد تک بھاری ٹیرف عائد کردیا۔
چین نے بھی جوابی اقدامات کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 125 فیصد تک بھاری ٹیکس لگا دیے۔
مہلت کیوں ضروری ہے؟
اس سال اپریل اور مئی میں دونوں ممالک نے ایک عارضی ”ٹیکس جنگ بندی“ (Tariff Truce) کا اعلان کیا، جس کے تحت دونوں ممالک نے ٹیرفز میں کچھ کمی کی تاکہ مذاکرات کا راستہ کھلا رہے۔
یہ 90 روزہ مہلت پہلی بار مئی میں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے دوران طے پائی تھی، جس کے تحت امریکا نے چین سے آنے والی مصنوعات پر محصولات کو 245 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد کیا، جبکہ چین نے امریکی مصنوعات پر عائد محصولات کو 125 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا تھا۔
اس ”ٹیرف ٹروس“ کی مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی تھی، لیکن دونوں فریقین خدشہ تھا کہ اگر بھاری ٹیکس دوبارہ نافذ ہو گئے تو عالمی منڈیاں شدید مندی کا شکار ہو جائیں گی، سپلائی چین میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوں گی، کرسمس سیزن سے پہلے کاروبار کو غیر یقینی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور مہنگائی مزید بڑھ جائے گی۔
نشہ آور کیمیکل فینٹانل (Fentanyl) کے امریکا میں اسمگلنگ کے الزامات جیسے حساس معاملات اور نایاب معدنیات کی برآمدات پر بھی دونوں ممالک میں اختلافات ہیں، جنہیں ایک وسیع تر تجارتی معاہدے میں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسی لیے، مذاکرات کو جاری رکھنے اور بڑے بحران سے بچنے کے لیے مزید 90 دن کی مہلت دے دی گئی، جس کی نئی آخری تاریخ 10 نومبر ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ (Scott Bessent) کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اضافی مہلت اس لیے دینے پر غور کیا تاکہ دونوں فریق محصولات کو تقریباً 50 فیصد پر مقرر کرنے، غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کے خاتمے اور امریکی برآمدات کے لیے چین میں مزید مارکیٹ ایکسیس جیسے معاملات پر تفصیل سے بات کر سکیں۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا:
’یہ اقدام جاری اور تعمیری مذاکرات کے لیے ضروری ہے تاکہ تجارتی عدم توازن کا حل نکالا جا سکے اور قومی سلامتی و اقتصادی معاملات پر ہم آہنگی پیدا ہو۔‘
امریکا میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگ یو (Liu Pengyu) نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا:
’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکا چین کے ساتھ مساوات، باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر بات چیت جاری رکھے گا، غلط فہمیوں کو کم کرے گا اور تعاون کو مضبوط بنائے گا۔‘
ٹیرف جنگ بندی معاہدہ ٹوٹ گیا تو۔۔۔؟
اگر یہ ٹیرف ٹروس ٹوٹ گیا تو امریکی اور چینی معیشتوں پر نہ صرف مزید بوجھ پڑے گا بلکہ عالمی منڈیاں بھی شدید عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہیں۔ صنعتیں نئی سرمایہ کاری اور ملازمین کی بھرتی سے گریز کریں گی، جبکہ مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔
ممکن ہے کہ امریکا دوبارہ چین پر 245 فیصد تک ٹیرف لگا دے اور چین بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کرے۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ عالمی سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال کے باعث سرمایہ کاری مؤخر کر دیں۔ عالمی سپلائی چین، خاص طور پر ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں شدید رکاوٹیں پیدا ہوجائیں۔
کاروباری دنیا کا ردعمل
امریکا-چین بزنس کونسل کے صدر شان اسٹائن (Sean Stein) نے معاہدے میں 90 روزہ اس توسیع کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا:
’یہ توسیع انتہائی اہم ہے، کیونکہ یہ دونوں حکومتوں کو ایسے معاہدے تک پہنچنے کا وقت دے گی جو امریکی کمپنیوں کو چین میں بہتر مارکیٹ رسائی، تجارتی عدم توازن کے حل اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے لیے یقین دہانی فراہم کرے۔‘
سابق امریکی تجارتی نمائندہ برائے چین جیف مون (Jeff Moon) کے مطابق، ٹرمپ اس معاہدے کو اکتوبر کے آخر میں جنوبی کوریا میں ہونے والے علاقائی سربراہی اجلاس سے قبل حتمی شکل دینا چاہتے ہیں۔
مون نے جمعے کو واشنگٹن انٹرنیشنل ٹریڈ ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ ایک مباحثے کے دوران کہا:
’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح دونوں ممالک حالیہ مہینوں میں اعتماد سازی کے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ بڑے معاہدے کی راہ ہموار ہو۔‘
وقتی سکون اور اصل چیلنج
چین اور امریکا کی ایک دوسرے کو دی گئی نوے دن کی یہ مہلت بظاہر وقتی سکون فراہم کرے گی، مگر اصل چیلنج ایک ایسا طویل مدتی معاہدہ کرنا ہے جو دونوں معیشتوں کے لیے قابل قبول ہو اور عالمی تجارتی نظام کو مزید عدم استحکام سے بچا سکے۔
اس دوران دنیا بھر کی منڈیاں اور کاروباری حلقے واشنگٹن اور بیجنگ کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔