Aaj News

خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کا الیکشن کمیشن کا اعلامیہ کالعدم قرار

پشاور ہائیکورٹ نے دوبارہ سیٹوں کی تقسیم تک مخصوص نشستوں پر حلف برداری سے بھی روک دیا
شائع 08 جولائ 2025 08:09pm

پشاور ہائیکورٹ نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اعلامیہ معطل کردیا۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ نے 2 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت عالیہ نے 2 صفحات پر مشتمل جاری فیصلے میں الیکشن کمیشن کے خواتین اور اقلیت سے متعلق دونوں اعلامیے کالعدم قرار دے دیے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن اقلیت اور خواتین سے متعلق دوبارہ سیٹوں کی ایلوکیشن کریں، الیکشن کمیشن 10 دن کے اندر تمام امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو سنے۔

پشاور ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے تک مخصوص نشستوں پر حلف نہ لیا جائے۔

عدالت عالیہ نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اے این پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کو سن کر دوبارہ یہ نشستیں تقسیم کرے۔

آج کی سماعت کا احوال

قبل ازیں آج جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے مسلم لیگ ن کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کار کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

اسپیشل سیکرٹری لا الیکشن کمیشن محمد ارشد، وکیل الیکشن کمیشن محسن کامران، مسلم لیگ ن کے وکیل عامر جاوید، بیرسٹر ثاقب رضا، جے یو آئی کے وکیل نوید اختر، فاروق آفریدی عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے جب مخصوص نشستوں کی تقسیم کی تو اس وقت مسلم لیگ ن کے 6 ارکان کاؤنٹ کیے۔ مسلم لیگ ن نے 8 فروری الیکشن میں 5 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

امیدوار کی کامیابی نوٹیفکیشن کے بعد 3 دن میں آزاد امیدواروں کو کسی پارٹی کو جوائن کرنا ہوتا ہے اور آزاد امیدوار حسام انعام اللہ مقررہ وقت میں مسلم لیگ ن کو جوائن کیا۔

وکیل کے مطابق ابھی امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن باقی تھا، الیکشن کمیشن نے 22 فروری کو مخصوص نشستوں کی تقسیم کی۔

درخواست گزار کے وکیل کے مطابق خیبرپختونخوا میں 26 خواتین کی مخصوص نشستیں ہیں اور 4 اقلیت کی نشستیں ہے۔پی کے 82 سے ملک طارق اعوان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن 22 فروری کو جاری کیا جاتا ہے۔ 23 فروری کو ملک طارق اعوان نے مسلم لیگ کو جوائن کیا اور اسی دن الیکشن کمیشن کو لیٹر جاری کیا جاتا ہے۔

عدالت کو وکیل نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کی اسمبلی میں 7 نشتیں ہوگئیں۔ 4مارچ کو اقلیت کی نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اقلیت کی نشست ایک جے یو آئی، ایک مسلم لیگ ن، ایک پی پی پی کو دی گئی جب کہ ایک سیٹ کو خالی رکھا کہ یہ ٹاس کے ذریعے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کو دی جائے گی۔

وکیل کے مطابق اسی 4 مارچ کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ ن کی 6 نشستیں کاؤنٹ کی جاتی ہیں۔ طارق اعوان کو اقلیت کی نشست پر مسلم لیگ ن کا شمار کیا جاتا ہے اور خواتین کی سیٹوں پر آزاد قرار دیا جاتا ہے۔

جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ مسلم لیگ ن کی اب 8 مخصوص نشستیں ہیں؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ملک طارق اعوان نے 22 فروری کے بعد جوائن کیا جب کہ آئین میں لکھا ہے کہ آزاد امیدوار 3 دن میں کسی پارٹی کو جوائن کرے گا۔ 22 کو نوٹی فکیشن جاری کیا جاتا ہے اور ایک دن بعد وہ مسلم لیگ ن کو جوائن کرتے ہیں۔

وکیل کے مطابق مقررہ مدت میں جوائن کرنے کے باوجود ملک طارق اعوان کو آزاد ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو بھی درخواست دی کہ دو آزاد امیدوار مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے، نشستوں کی تعداد 7 ہے۔ مسلم لیگ ن کی مخصوص نشستوں کی تعداد 9 ہونی چاہیے اور اقلیت کی ایک نشست ٹاس پر کی جائے۔

نوید اختر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی کو فریق نہیں بنایا، ہم اقلیت کی نشست پر منتخب گجرال سنگھ کی طرف سے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ سینٹ الیکشن ملتوی ہوں۔ عدالت اس کو الیکشن کمیشن بھیجنا چاہتی ہے تو 3 دن میں الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ کرے۔

جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں سمجھا دیں کہ جب پراسس مکمل نہیں ہوتا تو کیسے نشستوں کی تقسیم کرسکتے ہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکرٹری لا نے بتایا کہ الیکشن کے 21 دن بعد اسمبلی کا اجلاس ہونا ہوتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ 22 فروری آخری تاریخ دیتے ہیں کہ اس وقت تک پارٹی جوائن کریں۔ آپ نے 5 سیٹیں 22 فروری کی پارٹی پوزیشن پر دی ہیں۔ 21 سیٹیں تو مارچ میں دی ہیں، اس کی کیا لاجک ہے؟۔

اسپیشل سیکرٹری لا نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 22 فروری کی پارٹی پوزیشن پر نشستیں دی ہیں، جس پر جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ اگر آپ 22 کو ساری مخصوص نشستیں دیتے تو پھر اور بات تھی۔

جے یو آئی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جس پارٹی کی نشستوں کو چیلنج کیا ہے اس پارٹی کو فریق بنایا جائے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایک جولائی کو مسلم لیگ ن نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اس پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ آگیا ہے۔ الیکشن کمیشن میں سریش کمار نے درخواست دائر کی تھی، وہ یہاں پر درخواست گزار نہیں ہے۔ طارق اعوان بھی یہاں پر درخواست گزار ہے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

واضح رہے کہ 2 جولائی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے معطل شدہ 77 میں سے 74 ارکان کو بحال کر دیا تھا، جن میں 19 قومی اسمبلی، 27 پنجاب اسمبلی، 25 خیبر پختونخوا اسمبلی اور 3 سندھ اسمبلی کے ارکان شامل تھے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر 21 خواتین اور 4 اقلیتی امیدواروں کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا تھا،جس کے بعد اپوزیشن کی تعداد 52 ہوگئی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) 19 نشستوں کے ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی، جے یو آئی (ف) کی 8 خواتین اور 2 اقلیتی نشستیں بحال ہوئی تھیں۔

دوسری جانب، مسلم لیگ (ن) کی صوبائی اسمبلی میں 6 خواتین اور ایک اقلیتی نشست بحال ہونے کے بعد ایوان میں تعداد 16 ہوگئی تھی۔

4 جولائی کو مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

علاوہ ازیں، پاکستان پیپلزپارٹی کی 5 خواتین اور ایک اقلیتی نشست بحال ہونے کے بعد تعداد 11 ہوگئی تھی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین (پی ٹی آئی پی) کی ایک، ایک خواتین کی مخصوص نشست بحال ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ مارچ 2024 میں ای سی پی نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا، ان نشستوں پر پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) نے دعویٰ کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے ایس آئی سی کی اس بنیاد پر دائر درخواست مسترد کر دی تھی کہ انہوں نے پی ٹی آئی سے مخصوص نشستوں کے لیے ’انضمام‘ کیا ہے۔

ای سی پی سے درخواست کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو پارٹی میں شامل کر کے مخصوص نشستیں دی جائیں، لیکن کمیشن نے یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کردی تھیں۔

ای سی پی کا 77 میں سے 74 ارکان کو بحال کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ایک اہم فیصلے کے بعد آیا تھا، جو 10 رکنی آئینی بینچ نے 3-7 کی اکثریتی رائے سے دیا تھا۔

KPK Assembly

Peshawar High Court

reserved seats

pti Reserved seats

Review case on reserved seats