Aaj News

سوات سیلابی ریلہ: محکمہ آبپاشی کا وقت پر الرٹ، مگر انتظامیہ کی غفلت نے قیمتی جانیں نگل لیں

محکمہ آبپاشی کی رپورٹ میں اہم ترین انکشافات
اپ ڈیٹ 01 جولائ 2025 01:39pm

سیلاب کب آئے گا؟ کہاں پہنچے گا؟ کتنا خطرناک ہوگا؟ ان تمام سوالات کا واضح جواب محکمہ آبپاشی نے وقت پر دے دیا تھا، مگر سوات انتظامیہ کی مبینہ غفلت نے ایک اور انسانی سانحے کو جنم دے دیا۔ محکمہ آبپاشی نے صبح 8 بج کر 41 منٹ پر الرٹ جاری کیا، جس میں سوات، نوشہرہ اور چارسدہ کے ڈپٹی کمشنرز کو ممکنہ سیلابی ریلے سے آگاہ کر دیا گیا، مگر 9 بج کر 47 منٹ پر جب ریلہ خوازہ خیلہ پہنچا، انتظامیہ مکمل طور پر غیر فعال نظر آئی۔

ستائیس جون کو سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں پیش آنے والے سیلابی واقعے پر محکمہ آبپاشی خیبرپختونخوا نے تفصیلی رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ادارے نے بروقت وارننگ جاری کی تھی، مگر متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے مؤثر اقدام نہ ہونے کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق 27 جون کو دریا کا بہاؤ صرف چند گھنٹوں میں 6,738 کیوسک سے بڑھ کر 77,782 کیوسک تک جا پہنچا، جو ایک انتہائی خطرناک حد ہے۔ محکمہ آبپاشی نے صبح 8 بج کر 41 منٹ پر سیلابی ریلے کے متعلق ابتدائی وارننگ جاری کی، جسے ڈی سی سوات، چارسدہ، نوشہرہ اور پی ڈی ایم اے سوات سمیت تمام متعلقہ اداروں کو بروقت پہنچا دیا گیا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ واٹس ایپ گروپس اور دیگر ذرائع کے ذریعے دریا کے بہاؤ کی مسلسل اپڈیٹس فراہم کی جاتی رہیں، جبکہ 10:30 بجے شدید سیلاب کا انتباہ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اے ڈی سی ریلیف سمیت ضلعی اور صوبائی حکام کو بار بار الرٹس بھیجے گئے اور ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہے کہ محکمہ آبپاشی نے اپنی ذمہ داری بروقت اور مکمل ادا کی۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خوازہ خیلہ میں سیاح معمول کے بہاؤ کے دوران دریا کے بیچ تک جا پہنچے تھے، اور اچانک پانی کی سطح میں اضافہ ہونے کے باعث وہ پھنس گئے۔ محکمہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ شدید بارش کے باعث دریا میں اچانک طغیانی آنے سے پیش آیا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2022 کے بعد دریا میں مٹی بھر جانے سے ندی کا بہاؤ کم سطح پر محسوس ہونے لگا تھا جس کی وجہ سے سیاح بآسانی اندر تک چلے جاتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ قبل وارننگ جاری ہونے کے باوجود نہ کوئی حفاظتی اقدام کیا گیا، نہ ہی سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ جس کے بعد یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ معصوم سیاحوں کی اموات کا ذمہ دار کون ہے؟

ذرائع کے مطابق متاثرہ خاندان 9 بج کر 47 منٹ پر پانی میں پھنس گیا، مگر ریسکیو ایمبولینس 10 بج کر 7 منٹ پر موقع پر پہنچی۔ حیران کن طور پر ایمبولینس میں صرف میڈیکل ٹیم موجود تھی، اور ان کے پاس سیاحوں کو پانی سے نکالنے کے لیے کوئی سازوسامان موجود نہیں تھا۔

ذرائع کے مطابق امدادی کارروائی میں تاخیر، غیر تسلی بخش تیاری اور ناکافی سامان نے ریسکیو مشن کو انتہائی کمزور کر دیا، جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔

محکمہ آبپاشی نے سفارش کی ہے کہ ریسکیو 1122 کو فلڈ ریسکیو آلات فراہم کیے جائیں، سیاحتی علاقوں میں داخلے کو محدود کیا جائے، ہوٹل مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ سیاحوں کو خطرناک مقامات پر نہ لے جانے دیں۔

مزید سفارش کی گئی کہ مقامی انتظامیہ پالیسی بنائے کہ سیاحوں کو محفوظ مقام تک محدود رکھا جائے، مدین اور کالام میں اضافی ٹیلی میٹری گیجز لگائے جائیں تاکہ پانی کی سطح پر فوری نظر رکھی جا سکے۔

محکمہ آبپاشی نے تو اپنی ذمہ داری وقت پر ادا کی، مگر ضلعی انتظامیہ کی خاموشی اور سستی نے پورے نظام پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔

وارننگ میں تاخیر، ریسکیو ٹیم کے پاس امدادی سامان نہیں تھا، اے ڈی سی حامد بونیری کا انکشاف

دوسری جانب اے ڈی سی سوات حامد بونیری نے آج نیوز سے گفتگو میں الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ٹیم بروقت جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی، تاہم سیلابی وارننگ تاخیر سے موصول ہوئی، جس کے باعث سیاح بہہ چکے تھے۔

آج نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اے ڈی سی حامد بونیری کا کہنا تھا کہ وارننگ صبح 10 بج کر 48 منٹ پر موصول ہوئی، جبکہ اس وقت تک دریا میں بہہ جانے کا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر اطلاع ملی تھی کہ ایک شخص پانی میں پھنس گیا ہے، جس پر فوری طور پر ریسکیو 1122 کی ٹیم اور اسسٹنٹ کمشنر موقع پر پہنچے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریسکیو ٹیم کے پاس طبی آلات تو موجود تھے مگر امدادی کارروائیوں کے لیے درکار مخصوص سامان دستیاب نہیں تھا، جس کی وجہ سے بروقت بچاؤ ممکن نہ ہو سکا۔

Swat River Incident

Irrigation Department report

Administrative Failure