Aaj News

پشاور بی آر ٹی منصوبہ آپریشنل ہونے کے باوجود نامکمل کیوں؟

ڈبگری پلازہ کا آوٹ سورس کرنا اور سائیکل ٹریک کا معاملہ کنٹومنٹ میں پھنس گیا
شائع 25 فروری 2025 10:08am
Why Has Peshawar BRT Project Been Delayed for Years? Special Report - Aaj News

پچھترارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے پشاور بی آر ٹی منصوبہ میں توسیع اور 50 نئی بسیں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سالانہ 3.7 ارب روپے کی سبسڈی کی مد میں پڑنے والے بوجھ تلے دبی ٹرانس پشاور کو بجلی کے اخراجات سے بچانے کے لئے چمکنی سٹیشن پر ایک میگا واٹ کا سولر سسٹم لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ڈبگری پلازہ پر کنٹونمنٹ کے مسائل کی وجہ سے آؤٹ سورس کرنے کا چیلنچ سامنے آگیا ہے۔

پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ

2016 کے پی سی ون کے مطابق پراجیکٹ کی ٹوٹل کاسٹ 46 بلین رکھی گئی جس میں چمکنی سے حیات آباد تک 26 کلومیٹر کی سڑک شامل تھی۔ 2017 میں جب اس پراجیکٹ پر کام شروع ہوا اور دعویٰ کیا گیا کہ 6 ماہ میں یہ منصوبہ مکمل کر لیا جائے گا تو 26 کلومیٹر پر مشتمل بی آر ٹی منصوبے کا روٹ چمکنی سے شروع ہو کر خییر بازار، صدر اور پھر وہاں سے یونیورسٹی روڈ سے ہوتا ہوا حیات آباد پر جا کر ختم ہو جانا تھا، لیکن بعد ازاں پراجیکٹ ڈیزائن اور طوالت سمیت کئی چیزوں میں تبدیلی نے ٹوٹل کاسٹ کو 75 بلین تک پہنچا دیا۔

پراجیکٹ میں نہ صرف 3 کمرشل پلازے (چمکنی، ڈبگری اور حیات آباد ) شامل کئے گئے بلکہ سڑک کو بھی حیات آباد سے بڑھا کر کارخانوں مارکیٹ تک پہنچا دیا گیا، جس سے بی آر ٹی روڈ کی لمبائی 27 کلومیٹر ہوگئی اور بنیادی طور پر بات ایک پراجیکٹ سے 6 ریچز تک پہنچ گئی۔

جس پراجیکٹ کو 6 ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا وہ 2020 میں جا کر اس نہج پر پہنچا کہ بس کو سڑک پر ڈال دیا جائے۔ مکمل پراجیکٹ کے لیے کُل 450 بسیں خریدنے کی منظوری ہوئی جس میں فیز ون میں 244 بسیں لائی گئیں جن پر روزانہ تقریباً 3 لاکھ سے زائد افراد سفر کرتے ہیں۔

بی آر ٹی پشاور کو دریش تنازعات

پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں 6 ماہ کے دوران صرف 6 ہی فیصد کام ہوسکا اور اس پر بھی غیر معیاری ہونے کا ٹھپہ لگ گیا، جس پر صوبائی حکومت نے بی آر ٹی پشاور کا ایشیائی ترقیاتی بینک ( اے ڈی بی) سے فرانزک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ کنٹریکٹر اور کنسلٹنٹ تاخیر اور مسائل کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔ ٹھیکدار اور پھر ذیلی ٹھیکدار، کچھ دکاندار اور شہری بی آر ٹی کے خلاف عدالت بھی چلے گئے۔ ناقص منصوبہ بندی اور پراجیکٹ ڈیزائن میں غفلت جبکہ فیزیبلٹی اسٹڈی میں خامیوں کے باعث منصوبے میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں۔ اور یُوں کہانی بہت پیچیدہ ہوتی گئی، جب کہ ادائیگیوں میں بھی تاخیر الگ مسئلہ بنا رہا ۔ایک تنازعہ یہ بھی رہا کہ منصوبہ ایک ایسی کمپنی کو سونپا گیا جو دیگر صوبوں میں اسی قسم کے کام کے حوالے سے بلیک لسٹ قرار دی جا چکی تھی۔

بی آرٹی بین الاقوامی ثالثی عدالت کیسے پہنچی

جوائنٹ وینچر کنٹریکٹرز (SGEC-MAQBOOL-CALSONS-JV) نے 28 مارچ 2024 کو بین الاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کیا اور بقایاجات کی مد میں متنازعہ رقم طلب کی۔ تاہم پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PDA) اور بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT) ٹھیکیدار عدالت سے باہر تصفیہ پر پہنچے اور ایک معاہدے کے تحت خیبرپختونخوا حکومت نے ٹھیکیداروں کے 2.6 بلین روپے ادا کر دئیے۔ ادائیگی کے بدلے، ٹھیکیدار نے بین الاقوامی ثالثی عدالت سے اپنا مقدمہ واپس لے لیا اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے ٹھیکیداروں کے خلاف اپنے مقدمات بھی بند کر دیے۔

3.7 ارب روپے کی سبسڈی

پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ میں روزانہ 3 لاکھ سے زائد مسافر سفر کرتے ہیں، تاہم کمرشل پلازہ کی تعمیر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے منصوبے سے لگائی گئی توقعات پوری نہ ہوسکیں اور 3.7 ارب کی سبسڈی اس منصوبے کو چلانے میں دینا پڑی۔

ٹرانس پشاور کے ڈیٹا کے مطابق بی آرٹی کا فی مسافر اوسط کرایہ 33 روپے ہے، جبکہ فی مسافر اوسط خرچہ 86 روپے ہے، اور یُوں اس فرق کو پورا کرنے کے لئے حکومت سے 53 روپے فی مسافر سبسڈی لی جاتی ہے۔

نیا روٹ، نئی بسیں اور ایک میگا واٹ کا سولر سسٹم

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ رنگیز احمد نے ٹرانس پشاور سے متعلق بات کرتے ہوئے آج نیوز کو بتایا کہ 75 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ کئی سالوں سے آپریشنل ہے، لیکن جو پشاور سٹی کے لئے پلان تھا اس پر ابھی کام جاری ہے۔ مزید 50 بسیں اور نئے روٹ کی فیزیبلٹی تیار کی جا رہی ہے اور یہ 50 بسیں اپنے صوبائی فنڈز سے خریدی جائیں گی، جس کے لئے سابقہ کمپنی پرانے ریٹس پر بسوں کی فراہمی کے لئے تیار ہے۔ لیکن حکومت نے سابقہ کمپنی کو ترجیحی پوزیشن پر رکھ کر اوپن بٹ پر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بی آرٹی کو کمرشل سپورٹ دینے والے اہم حصے کمرشل پلازوں کی تعمیر کی تاخیر کے سوال پر اُنہوں نے سارا ملبہ نگران حکومت پر ڈال دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے جانے کے بعد ڈیڑھ دو سال غیر قانونی حکومت چلتی رہی جس کی وجہ سے کام تاخیر کا شکار رہا، تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد کام دوبارہ شروع کیا گیا، اب چمکنی پلازہ ہمیں ہینڈ اوور ہو چکا ہے، تاہم حیات آباد اور ڈبگری پلازہ اپریل تک مکمل کر لیا جائے گا۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے ڈبگری پلازہ پر کنٹونمنٹ کے مسائل کی وجہ سے آؤٹ سورس ہونے کے چیلنچ کا بھی اقرار کیا۔

دوسری طرف سبسڈی کی مد میں پڑنے والے بوجھ تلے دبی ٹرانس پشاور پر بجلی کے اخراجات میں کمی کے لئے رنگیز احمد نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے چمکنی سٹیشن پر ایک میگا واٹ کا سولر سسٹم لگانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

اب سوال یہ تھا کہ 75 ارب تو لگ گئے، اب مزید اور کتنے اس کنوئیں میں ڈالیں گے؟ اس کے جواب پر رنگیز احمد نے کہا کہ فزیبلٹی تیار ہو رہی ہے اس کے بعد ہی فائنل تخمینہ سامنے آئے گا۔

بی آرٹی سہولت یا مصیبت

اگرچہ پشاور اور خاص طور پر یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک کے اژدھام سے روز پیش آنے والے مسائل میں گھرے عوام کو سنیں تو ان کو بی آر ٹی پیسے کا ضیاع ہی لگتا ہے کہ جس سے روڈ تنگ ہوا اور یونیورسٹی روڈ کے زریعے حیات آباد جانے والے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا، جس کا اب کوئی حل ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر بات کریں عام آدمی کی جو بی آرٹی بس استعمال کرتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہیں۔

متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ملازمت پیشہ افراد، طلبا اور خواتین کے لئے یہ بس کسی نعمت سے کم نہیں۔ تاہم، 100 روپے کے زو کارڈ کے 400 روپے کئے جانیں، بی آر ٹی ایکسپریس روٹ کا کرایہ 35 سے 66 اور بی آر ٹی سٹاپ ٹو سٹاپ کرایہ 20 سے 25 روپے کرنے پر عوام کا کہنا ہے کہ کرایے میں اضافے نے ان کے بجٹ پر اثر تو ڈالا لیکن اکثریت یہ کہتی نظر آئی کہ اس سے آگے نہیں جانا چاہیے۔ کچھ مسافر پشاور بی آر ٹی کے کرایے کا لاہور اور اسلام آباد کی بس سے بھی موازنہ کرتے نظر آئے۔

لیکن اوورآل عام آدمی کے لئے بی آر ٹی ایک اچھا منصوبہ ہے جو روزانہ لاکھوں مسافروں کو سستی اور تیز ٹرانسپورٹ سہولت فراہم کر رہا ہے، اس لئے عوام کے پُرزرو اصرار پر اس کی توسیع کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔

Peshawar BRT