بھٹو کے نام پرسیاست کب تک؟
تحریر: رفعت سعید
پیپلز پارٹی اپنے بانی چیئرمین اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 40 ویں برسی منا رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو قتل کی سازش کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ عدالت نے فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دباؤ میں بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا اور یہی وجہ ہےکہ پیپلزپارٹی بھٹو کی موت کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے طرز سیاست سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی سیاسی قابلیت کے معترف ہیں اور بھٹو کے قلیل دور اقتدار میں کئے گئے کاموں کو ملک کی مختصر جمہوری تاریخ کے اہم کاموں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ملکی آئین کی تیاری ہو یا سقوط ڈھاکہ کے بعد 90 ہزار جنگی قیدیوں کی غیر مشروط واپسی یا قادیانوں کو غیر مسلم قرار دِلوانا۔ بھٹو نےعوام، مذہبی اور عسکری قوتوں کے دل جیتنے کی پھرپور کوشش کی مگر ناقیدین یہ بھی کہتے ہیں کہ بھٹو ایک نہیں بھٹو دو تھے ایک جو اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کا بھٹو تھا دوسرا وہ جو وزیر اعظم بن کر اسٹبلشمنٹ دوست بھٹو تھا۔
بھٹو کی موت کے بعد پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کو ملی جنہوں نے والد کے ساتھیوں کے ساتھ ہی سیاست کی مگر اپنے رفقا بھی بنائے۔امین فہیم، جہانگیر بدر، ناہید خان، صفدر عباسی، قائم شاہ، آفتاب شعبان میرانی جیسے باوفا ساتھیوں نے بے نظیر بھٹو کو ذوالفقارعلی بھٹو کے سائے سے نکل کر بذات خود ایک سیاستدان بنے میں مدد کی۔ مگر بے نظیر کی پیپلز پارٹی میں جنرل ضیا کی شوریٰ سے یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی بھی شامل ہوگئے۔
بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی مزید تین مرتبہ برسراقتدار آچکی ہے۔ دونوں مرتبہ بےنظیر بھٹو کی حکومت مدت پوری نہ کرسکی۔ پہلی مرتبہ کرپشن پر حکومت کو فارغ کیا گیا تو دوسری مرتبہ 1995 کے کراچی آپریشن پر پیپلز پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے ہی ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام عائد کرکے حکومت کو چلتا کردیا۔
بھٹو پر بطور حکمران کئی الزام لگے لیکن کرپشن کا الزام نہ ان کی زندگی میں کوئی لگا سکا اور ہی ان کی موت کے بعد۔مگر آج کی پیپلز پارٹی کا دوسرا نام کرپشن بن چکا ہے۔ پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی کے بعد سامنے آنا شروع ہوئے۔بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں آصف علی زرداری کو 'مسٹر ٹین پرسینٹ' کے نام سے جانا جاتا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرپشن پیپلز پارٹی میں سرائیت کرگئی۔موقع غنیمت جان کر آصف زرداری کے زمانہ طلبعلمی کے دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سمیت کئی دوسرے بھی پیپلز پارٹی کے رہنما ہوگئے۔ لیکن ان لوگوں نے حکومت برطرفی کے بعد بھی آصف زرداری یا پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بنے والی حکومت آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی نے بنائی جس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بنایا گیا اور آصف زرداری صدر پاکستان بن گئے۔اسی دور میں ملکی تاریخ کے بڑے کرپشن اسکنڈلز بھی سامنے آئے۔ ایوب خان کابینہ سے کرپشن پر نکالے گئے ملکی تاریخ کے پہلے وزیر حامد فاروقی کی پوتی شرمیلا اور سپریم کورٹ سے گرفتار ہونے والے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے احمد ریاض شیخ بھی اسی دور میں پیپلز پارٹی کو ملے۔حج اسکینڈل میں براہ راست وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور کرائے کی بجلی اسکینڈل میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا نام آیا۔
بھٹو اور بے نظیر کے ادوار تو پیپلز پارٹی میں اچانک ختم ہوئے لیکن زرداری دور کا خاتمہ ہونے میں وقت ہے۔منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ایک کے بعد ایک ساتھی بیرون ملک سے پکڑ پکڑ کر پاکستان لائے جارہے ہیں اور نوبت سندھ حکومت اور اسکے وزیر اعلٰی تک آن پہنچی ہے۔
دوسری جانب نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوزرداری آہستہ آہستہ قدم جمارہے ہیں۔ابتداء میں معروف صحافی عروسہ عالم کے صاحبزادے فخر عالم اور احمد ریاض شیخ کی صاحبزادوں کے نرغے میں رہنے والے بلاول نے اب نانا اور والدہ کے ساتھیوں قائم علی شاہ، رضا ربانی، فرحت اللہ بابر اور شیری رحمان جیسے صاف ستھرے اورزیرک سیاسی کارکنوں کی رفاقت اختیار کرلی ہے اور ان کی سیاست میں ان رہنماوں کے ساتھ کے اثرات بھی نظر آنے لگے ہیں۔
بلاول والد کی جوڑ توڑ اور مختصر دورانیے کی سیاست کے برخلاف بھٹو اور بے نظیر کی اصولی اور طویل دور کی سیاست کے طرف چل پڑے ہیں۔ بلاول کا دامن کرپشن سے پاک ہے مگر پیپلز پارٹی کے روائیول کا کام بہت مشکل ہے، راستہ لمبا اور منزل دور ہے۔بلاول کو مرتضٰی وہاب اور مصطفٰی نواز کھوکھر جیسے کئی اور مخلص ساتھی درکار ہیں۔ تاکہ بلاول نانا اور والدہ کے علاوہ اپنی بھی کوئی شناخت بناسکے۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔