نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قوم کا دھیان بانٹنے والے
پاکستانی قوم ہولناکیوں کی عادی ہے ، بہت کچھ برداشت کر چکی ہے ۔ اس لئے جب ملک حالاتِ سکون میں ہو تو قوم کو تشویش شروع ہوجاتی ہے کہ سب خیر و عافیت ہے۔ اسی لئے ہم پاکستانی کوئی نا کوئی ایسی کیفیت اختیار کرلیتے ہیں کہ تشویش پیدا ہوجائے۔ایک اہم ترین تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ ہم سب جلدی میں ہیں لیکن جلدی کس بات کی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے ۔ایک منظم سازش کے تحت بدنظمی ہماری طبعیت میں تحلیل کردی گئی ہے۔ ہم لاکھ اپنی صفوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کہیں نا کہیں سے کوئی نا کوئی صف ضرور سیدھی ہونے سے رہ جاتی ہے ۔ اس بدنظمی کو کیفیت کہہ سکتے ہیں اور عام لفظوں میں یہ بے چینی سے بھی مماثلت رکھتی ہے۔
قومی خوشی اور قومی غمی ہماری یکجہتی اور ایکتا کیلئے گاہے بگاہے جلوا گر ہوتی رہتی ہیں۔ یوں تو یہ بات بار ہا قابل ذکر رہی ہے کہ قوم ہمیشہ ہی کسی نا کسی مشکل میں ایک جان دِکھائی دیتی ہے یا پھر کوئی کرکٹ کی خوشی ہماری ایکتا کی مثال بننے کا بہانا بنتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ یکجہتی اور قومی ولولہ بہت دیر تک نہیں رہتا۔ یہ جوش تب تک تازہ رہتا ہے جب تک کشیدگی رہتی ہے۔ پاکستانی ہونے کا عزم و حوصلہ آسمان سے باتیں کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ ملک کیلئے اچھا نہیں ہے کہ کوئی حادثہ یا دشمن کی کوئی سازش ہی ہمیں ایک کرے۔دائمی امن اور استحا م پاکستان کیلئے ضروری ہے اور اس کیلئے لازمی ہے کہ پاکستانی ہرلمحہ آپس میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔
یہ بھی پڑھیئے: اب وہ وقت نہیں ہے
علم کی شمع جاہلیت کے سورج کو ماند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ پاکستان جہاں تعلیم کوصرف اسکول بنانے ، مفت کتابیں اور بستے بانٹنے تک محدود رکھے ہوئے ہیں جو کہ بدعنوانی کیلئے آسان اور مشہور ہونے کا آسان طریقہ ہے۔ جب اسکولوں کی تعداد کی بات ہوتی ہے تو سیکڑوں اسکول ایسے نکلتے ہیں جن کی جگہ بھینسوں کے باڑے یا پھر دھوبی گھاٹ ہوتے ہیں اور سرکار وہاں کے اساتذہ کو تنخواہ بھی دے رہی ہوتی ہے اور سالانہ مرمت کے کام کا بجٹ بھی لیا جاتا ہے اور دیگر لوازمات بھی ہوتے ہیں ، نہیں ہوتی تو تعلیم نہیں ہوتی اور طالب علم نہیں ہوتے ۔ یہ وہ نادر و نایاب ہتھیا ر ہے جو ہمارے خاندانی سیاست دانوں نے اپنی رعایا نما عوام تک پہنچنے نہیں دیا کیوں کہ وہ بخوبی واقف تھے کہ اگر ایسا ہوا تو اس ہتھیار کا سب سے پہلا نشانہ ہم اور ہمارا نام نہاد عزت دار گھرانا ہوگاپھر حالات قابو کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجائے گا۔اس لئے پاکستان میں جہالت بڑھتی ہی چلی گئی۔ عورت کی پامالی خاموشی سے ہوتی رہی اور کیا کچھ ہوتا رہا ہے جو اب سماجی میڈیا کی وجہ سے کسی بھی طرح سے دنیا تک پہنچ رہا ہے ۔ آج تو یہ بات بھی نہیں چھپتی کہ جلسے یا ریلی کو کامیاب دیکھانے کیلئے اور شرکت میں بلانے کیلئے کیا خصوصی انتظام کیا گیا ہے کہیں بریانی کی ایک پلیٹ تو کہیں کچھ روپے کی لالچ اور دیے گئے پیسوں میں سے بھی کاٹ پیٹ کر دیے جانے کے رازوں پر سے بھی پردہ اٹھ جاتا ہے ۔ پھر یہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کسی طرح سے عوام یعنی ان کے مزاروں کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھلنے کو ہے تو یہ ملک کو کسی بھی گڑبڑ کی نظر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
کچھ باتیں ہمیشہ سے وضاحت طلب ہیں جن میں سب سے اول یہ کہ کیا سب کچھ بطور کاروبار ہورہا ہے ؟ انسانیت کی خد مت کیلئے میدان عمل میں آنے والے ادارے کیا انسانیت کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں؟ ایک طرف دیکھو تو لگتا ہے ہر کوئی کاروبار کی نیت سے میدان عمل میں نکلا ہوا ہے اور کہیں کہیں ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ کسی نے اقتدار ہی انسانیت کی خدمت کیلئے حاصل کیا ہے۔ کیا یہ بات قابل ذکر نہیں کہ پاکستان میں عمومی طور پر بدعنوانی کےخلاف بات کرنا تو سب کو بہت اچھا لگتا ہے لیکن عملی طور پر کچھ کرنا کسی گناہ سے کم نہیں لگتا ہے۔
پاکستان ، بھارتی دراندازی کی وجہ سے بھرپور یکجہتی کی مثال بنا ہوا تھا پھر پاکستان سپر لیگ کے میچز پاکستان میں ہوئے تو ہم نے یکجہتی اور منظم ہونے کی مثالیں قائم کردیں۔پاکستان ایک با ہمت قوم ہے یہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی اپنی خودی حاصل کر نے کیلئے تیار ہے لیکن کچھ لوگ جنہیں لگتا ہے کہ اگر پاکستانی قوم ایک ہوگئی اور بغیر تعلیم کے انہیں سب سچ اور جھوٹ کا پتہ چل گیا تو ہمارا تو اس سرزمین سے سمجھ لیا جائے ہماری دال نہیں گلے گی۔
ہم پاکستانیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئےس کہ کون کون ایسے کام کررہا ہے جس سے عوام کا دھیان پاکستانیت سے ہٹ جاتا ہے اور اپنے ہی سرزمین کو نقصان پہنچانے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو جگہ نہیں دینی ہے تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ پاکستانی قوم صرف حادثوں اور کرکٹ کے جوش میں ایک نہیں ہوتی ہے یہ ہمیشہ کلئےہ ایک ہوچکی ہے ۔ اب کوئی بچنے کیلئے کسی بھی طرح اس قوم کا دھیان نہیں بانٹ سکتا۔
مقبول ترین
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔