نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
!انسانیت بقاء کی تلاش میں
دنیا کی آبادی تقریباً ساڑھے سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے ۔یہ افراد کیا یہ بڑا ہجوم ایک دوسرے کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، یہ جانے بغیرکہ آگے کیا ہے بس آگے بڑھنے کی ان تھک جستجو ہے ۔ یہ افراد لاشعور میں کہیں گم ہوجاتےہیں ۔ اتنی بھاگ دوڑ کے بعد جب ہجوم سے نکلتے ہیں تو سیدھے ایک گڑھے میں جاگرتے ہیں ، اس گڑھے سے کوئی نکالتا نہیں ہے بلکہ گڑھے پر مٹی ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔ہم بے دھیانی میں چلنے والے لوگ ہیں۔دنیا میں اربوں چلنے والوں میں گنتی کہ لوگ دھیان سے چلتے ہیں۔جو دھیان سے چلتے ہیں وہ سفر کی صعوبتوں پر شور نہیں کرتے بس طے شدہ منزل کی جانب پی شقدمی جاری رکھتے ہیں۔بے دھیانی میں سفر کی تکلیفیں برداشت نہیں ہوتی پھر شکوے ہوتے ہیں ، شکایتوں کےانبارلگتے ہیں ، تھکن ہی تھکن ہوتی ہے جوسارے بدن پرلپٹی رہتی ہے۔ دھیان علم کا محتاج ہے اور علم کیلئے جستجو اورکھوج سے آراستہ ہونالازمی جز ہے۔
یہ بھی پڑھیئے: پاکستان نے خیر سگالی کی تاریخ رقم کردی
دھیان کا محور اللہ کی رضا ہوجائے تو پھردنیا کی فکر سےآزادی مل جاتی ہے۔ دنیاگول ہے اور اس کا مرکز ایک گڑھا ہے جس میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے کوآخرکار گرجانا ہے۔ یہ گڑھا ہماری پیدائش سے ہمیں اپنی جانب کھینچنا شروع کردیتا ہے اور ہم بے دھیانی میں اسکے مخالف بھاگنا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ بھاگنے تو کیا چلنے بلکہ رینگنے کی بھی صلاحیت سے محروم ہوکر خود بخود ہی اس میں گر جاتے ہیں۔
گزرے زمانوں میں جب موبائل جیسی ایجاد ہماری پہنچ میں نہیں آئی تھی لوگ گھنٹوں تنہا ہواؤں میں معلق رہتے تھے اور یقیناًکسی نا کسی معاملے پر دھیان کی چکی چلاتے ہونگے، کتابوں کا علم نا رکھنے والے یہ گلیوں کوچوں میں فارغ بیٹھے لوگ قدرت کی کارستانیوں پر محو حیرت کچھ نا کچھ کھوج لیتے تھے ۔ان گھنٹوں کی ریاضت سے علم کشید کرلیا کرتے تھے ۔نئی نسل کی نظر میں ان لوگوں کے پاس کرنے کیلئے کچھ نہیں تھا اسلئے یہ لوگ ایسے ہی بیٹھے رہتے تھے جبکہ یہ وہ لوگ تھے جن کے جسموں میں روحیں زندہ تھیں اور یہ روحیں انہیں قدرت کے رازوں تک رسائی دلاتی تھیں۔ ایک دور تھا جب وقت خود بھی دھیان سے گزرتا تھا اور وقت کا دھیان یہ ہوتا تھا کہ آپ اگر کسی تحقیق میں مگن ہو تو وقت آپ کیلئے ٹہر جاتا تھا کیونکہ وقت دھیان دینے والوں کی قدر کرتا تھا اور وقت کو معلوم تھا کہ یہ وقت کے خاص لوگ ہیں جنہیں آنے والے وقت میں وقت کی مناسبت سے سراہا یا جائے گا۔
دنیا کی ترقی نے آسائشوں کا طوفان برپا کردیاہے ۔ اس طوفان کی زد میں آکر انسان نے سب سے پہلے صحیح اور غلط ،سچ اور جھوٹ سے جان چھڑائی۔یہ طوفان انسان کو سختی اور ریاضت سے نکال کر سہل پسند ی کی دلدل میں گھسیٹتا لے جا رہا ہے ۔در حقیقت بظاہر آرام دہ دیکھائی دینے والے حالات اسکے برعکس ہیں لوگ مسائل کہ ہجوم میں گم ہوتے جا رہے ہیں ، لیکن وہ گڑھا انہیں اپنی جانب گھسیٹ رہا ہے ۔بے روح جسم کی طرح انسان کھوکھلا ہوچکا ہے ۔انسان جس میں روح تو ہے لیکن یہ کسی لاش کی طرح انسان کے جسم میں دفن ہے اور جسم کے تھک ہارنے کےک بعد اس گڑھے میں گرنے کی منتظرہے۔
انسانوں کے اس ہجوم میں انسانیت رُندھ گئی ہے اور میڈیا انسانیت کی بےتوقیری دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں دکھا رہا ہے۔ شام کے ساحل پر پڑی بچے کی لاش نظروں میں نہیں گھومتی ، کشمیر میں ہر روز خون آلود لاشوں کا جلوس نکلنا ، فلسطین میں دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوج سے پتھروں سے لڑتے معصوم بچے دکھائی نہیں دیتے۔
یہ بھی پڑھیئے: کیا حق اور ناحق کی تشخیص ممکن ہے؟
آج دھیان ہٹ گیا ہے پہلے ایک پھر دوسرا پھر تیسرا ایسے بے تکے کاموں کی ایک فہرست ہماری زندگیوں سے چپک گئی ہیں(سماجی میڈیا اسکا سب سے بڑا محرک ہے ) اور اس فہرست میں سب کچھ ہے مگر دھیان دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ۔ شائد ہمارا دھیان بسترِ مرگ پر پڑا سسک رہا ہے کہ شائد کوئی گیانی اسے جلد بازی کے عارضے سے نجات دلائے اور دھیان کا دھیان کیا جانے لگے۔ انسان اسکی اہمیت سمجھنے لگے کہ دھیان ابھی اس خیال سے موت سے لڑ رہا ہے ۔
ہمیں بنیادی چیز پر غور کرنا پڑے گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے اہداف کے حصول کیلئے دھیان سے خوب تعلق نبھایا ہے ۔ آج دھیان انہیں کہاں سے کہاں لے گیا ہے اور ہم جنہوں نے دھیان کرنا دنیا کو سیکھایا تھا کہاں رہ گئے ہیں ۔ ہم نے گناہ خرید نے کیلئے اپنی کی گئی نیکیاں دے دیں۔ ہم نے جسم کی نمود و نمائش کیلئے حیاء بیچ دی۔ ہم نے اپنی حفاظت کیلئے دنیا جہان کی آنکھیں خرید لیں۔ ہم وہاں تو محتاط ہوجاتے ہیں جہاں کیمرے کی آنکھ ہمیں دیکھ رہی ہو لیکن خدا کی نظر کے سامنے کیا کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ اب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں لکھ سکتا ہے کہ اس جدید دور میں بھوک و پیاس کی بہتات ہے ۔ ایک دوسرے کو روندھتے ہوئے آگے بڑھ جانے کی جستجو ہے ۔یہاں کچھ بھی محفوظ نہیں رہا انسانیت بقاء کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔