Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

کپتان بھلے ہی آپ ہیں لیکن پچ کسی اور کی ہے

تو عرض ہے کہ کھیلیں ۔اور خوب کھیلیں۔ لیکن ذرا دھیان سے کیونکہ پویلین میں کوئی اور بھی ہے جو آپکی جگہ لینے کو تیار ہے ۔
اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2021 03:35pm
رائٹرز
رائٹرز

تحریر: فرزانہ علی

میم اسلام علیکم

وعلیکم سلام

میم وہ آپ سے بات کرنا تھی۔

جی کریے

وہ آپکا رپورٹر ابھی کورونا ایس او پیز پر بیپر دے رہا تھا تو کچھ مسئلہ ہوا ۔

کیا مسئلہ ہوا بھائی ؟

جی وہ کہہ رہا ہے کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے والانہیں۔

جہاں وہ کھڑاتھا آپکو پیچھے کیا نظر آرہا ہے کیا وہ اس کے بر خلاف ہے جو وہ کہہ رہا ہے؟

نہیں جی۔۔ ہے تو وہی تھا جو وہ کہہ رہا ہے ۔

تو پھر ۔۔۔ایسے میں رپورٹر کو کیا کرنا چاہیے۔

جی اسے جگہ بدل لینی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو میم

جی فرمائیے

میم یہ آپکی ٹی وی سکرین پر کیا چل رہا ہے !

جانی خیل واقعے کی خبر ۔پولیس کے ساتھ جھڑپ میں ایک نوجوان ہلاک اور کچھ پولیس والے زخمی ہوئے ہیں ۔

کیوں کیا ہوا؟

میم یہ خبر تو نہیں چلانی تھی۔

اچھا ۔لیکن بھیا۔۔ بندہ مر گیا ۔لوگ زخمی ہیں۔

جی ۔۔آپ فکر نہ کریں ابھی مسئلہ حل ہو جائے گ۔ا آپ بس خبر اتار دیں!

اوکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اور ایسی کئی کالیں اور احکامات گذشتہ کئی برسوں سے ہمارا معمول ہیں بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ کئی برسوں سے آہستہ آہستہ خبر سکرین سے غائب ہو گئی ہے اور اس کی جگہ کچھ سیاسی اورکچھ غیر سیاسی چہرے ایک دوسرے کو لتاڑنے کے لئے گھنٹوں سکرین کو ہائی جیک کر لیتے ہیں جسکی وجہ سے عوام کے ایشو کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔

خبر اپنے کئی جزو کھو کر صرف کیا ،کب اور کہاں تک سکڑ چکی ہے بلکہ کچھ اہم خبریں جو خاص دروازوں سے آتی ہیں انکا کب تو کب کا پرانا ہو چکا ہے ۔

صحافت کی یہ صورتحال اور پھر بھی صحافی بدنام ۔

خصوصا وہ جو بات کرنا چاہتے ہیں خبردینا چاہتے ہیں اور خبر کے پیچھے کی اصلی صورتحال کو عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ایسے صحافیوں اور میڈیا اداروں سے متعلق رویہ انتہائی ہتک آمیزبلکہ اب تو خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے جسکی تازہ ترین مثال عاصمہ شیرازی اور اس سے قبل ،غریدہ فاروقی،حامد میر اور کئی خواتین اور مرد صحافی ہیں ۔

ایک سادہ سا کالم۔۔ جسمیں سسنسر شپ کی زنجیر میں جکڑا صحافی لفظوں کے استعمال کی مدد سے کچھ معاملات کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ملک اور قوم کو درپیش مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے حالات کی نزاکت کو سامنے لا سکے جو یقیناقلم کے رشتے سے جڑے صحافی کی اولین ذمہ داری ہے اور عاصمہ نے بھی یہی کیا ۔

لیکن پھر کیا ہوا ۔۔

ایک ایسا طوفان بدتمیزی کہ جو اُ س لحاظ کے رشتے کو بھی بہا لے گیا جو ہمارے معاشرے کا ایک خاصہ ہوا کرتا تھا ۔ کہیں کردار پر حملے تو کہیں مذہب کارڈ کا استعمال اور کہیں لفافوں کی کہانیاں ۔ سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے جو کسی طور بھی انصاف کی بات کرنے والوں کو زیب نہیں دیتے ۔

جب دعوے جمہوریت کے لیکن کردار ہ فسطائیت کی عکاسی کرے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب معاشرہ کس نہج پر چل نکلا ہے اور یہی ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دے رہا ہے۔

کوئی سوال اٹھائے تو زبان بند کر دو!

کوئی دلیل دے تو مذہب کی تلورا سے اسکا گلہ کاٹ دو !

کوئی اختلاف کرے توبدنام کر دو!

کیا یوں آپ اپنا کھیل کھیل لیں گے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ آپکے ساتھی کھلاڑی آپکے کھیلنے کے انداز سے نالاں ہو کر آپکی بیٹنگ پوزیشن ہی بدل دیں ۔

کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی ۔وطن عزیز میں کئی بار ان آنکھوں نے وہ مناظر بھی دیکھے جو گمان میں بھی نہیں تھے ۔

اب کی بار بھی بظاہر کپتان بھلے آپ ہی ہیں لیکن پیچ کسی اور کی ہے اور آپکو اس لیگ میں بولی لگا کر چانس دیا گیا ہے تاکہ اپنی ٹیم کو جتوایا جا سکے ۔

تو عرض ہے کہ کھیلیں ۔اور خوب کھیلیں۔

لیکن ذرا دھیان سے کیونکہ پویلین میں کوئی اور بھی ہے جو آپکی جگہ لینے کو تیار ہے ۔

اس تحریر کی مصنفہ فرزانہ علی ہیں جو آج نیوز پشاور کی بیورو چیف ہیں۔

ٹوئٹر: @farzanaalispark

پاکستان

Asma Shirazi

journalism

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div