Aaj News

جمعرات, اپريل 18, 2024  
09 Shawwal 1445  

انڈے والا قبرستان۔۔۔

اندر کا منظر دیکھ کر میں نے اپنے جسم کے رونگٹوں کو کھڑے ہوتے محسوس کیا، دل پر خوف طاری ہوچکا تھا۔ کیونکہ یہ کوئی خیمہ بستی نہیں بلکہ ایک قبرستان تھا، جس میں چالیس کے قریب چھوٹی بڑی قبریں چار سے پانچ فٹ کے فاصلے پر موجود تھیں۔۔۔
شائع 11 ستمبر 2021 10:43am

تحریر: سفیرالہٰی قریشی

دفتر میں کام ہلکا تھا، کووڈ کے زمانے میں ویسے ہی آدھے لوگوں کا ورک فرام ہوم چل رہا تھا۔ آفس میں عوام کم تھی۔ عصر کا وقت تھا، ماحول بالکل خاموش تھا۔ایسے میں سستی طاری ہوہی جاتی ہے۔

سوچا تھوڑا سُستا لیا جائے، ڈیسک پر بازو ٹکائے ان پر سر رکھا اور آنکھیں بند کرلیں بالکل ویسے ہی جیسے اسکول میں ٹیچرز "ہیڈز ڈاؤن" کروا دیا کرتے تھے، عادت ابھی تک گئی نہیں تھی۔

نہ جانے کتنا وقت گزرا کہ دروازہ کھلا اور تکلف سے عاری ایک ساتھی نے سر اندر ڈال کر پوچھا، گھر نہیں جانا؟

میں نے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور وہ مسکرا کر جیسے بے تکلفی سے آیا تھا ویسے ہی نیند خراب کرکے چلتا بنا۔

چونکہ اب دید میں نیند نہ تھی تو رختِ سفر باندھا اور دفتر سے نکل پڑا۔

ہلکا ہلکا دھندلکا چھا رہا تھا، اس وقت نکلنا روٹین تھی، لیکن آج نہ جانے کیوں دل بے چین تھا۔ گھر میرا دفتر سے قریب ہی تھا اس لیے پیدل نکل پڑتا تھا۔ عموماً جو راستہ اختیار کرتا تھا آج وہاں گٹھنوں تک پانی موجود تھا، کیونکہ گزشتہ رات بارش ہوئی تھی۔

یہ شہر ہے کراچی، جو خاندان کا وہ بڑا بیٹا ہے جو کماتا بھی ہے، کھلاتا بھی ہے، ذمہ داریاں نبھاتا بھی ہے، لیکن سلوک اس کے ساتھ ہمیشہ لاوارثوں اور سوتیلوں والا کیا جاتا ہے۔ اس لئے اب یہاں سڑکوں پر دو دو دن تک پانی جمع ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ دن تو اب نہیں رہے جب ایک فون کال پر کراچی کا 4 لاکھ لڑکا سڑکوں پر ہوتا تھا۔ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں سے پانی ہٹایا جاتا، کچرا اٹھایا جاتا، راتوں کو پہرے دئے جاتے، کسی میں ہمت نہ تھی کسی کی بہن بیٹی پر بری نظر ڈالے یا نقب زنی کا سوچے۔

خیر بات ہورہی تھی راستے کی، پانی دیکھتے ہی مزاج پر ایک اکتاہٹ سی طاری ہوگئی، اب لمبا راستہ لیکر گھر جانا تھا جو علاقے سے بالکل ہٹ کر ایک میدان سے ہوکر گزرتا تھا۔ بچپن میں اس میدان میں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے، یا برسات میں بل بوٹیاں پکڑنے کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ بچپن کے بعد کبھی وہاں سے گزر نہیں ہوا۔

آج تقریباً بیس سال بعد اس جانب رخ کیا تھا، بادل گہرے ہوتے جارہے تھے، کچھ شام کا بھی اثر تھا کہ اندھیرا وقت سے پہلے ہی تیزی سے پھیلتا جارہا تھا۔ لیکن ابھی مکمل اندھیرا ہوا نہیں تھا۔

کافی دیر چلنے کے بعد اس میدان تک پہنچا، دن بھر کے کام کی وجہ سے پاؤں دکھنے لگے تھے، لیکن گھر تو جانا ہی تھا۔ تو رفتار تیز کردی۔ علاقے تک پہنچنے کے لیے میدان کے بیچ سے ہوکر گزرنا تھا۔ جو چاروں طرف سے چھ فٹ اونچی دیواری میں گھرا ہوا تھا۔ جہاں کبھی بچوں کا جھمگھٹ لگا رہتا تھا، وہ اب سنّاٹے اور جھاڑیوں کا مسکن تھا۔

انہی جھاڑیوں کے بیچ ایک پرانے بوسیدہ میلے کپڑوں سے گھری ایک جگہ دور سے ہی نظر آرہی تھی، جیسے خانہ بدوشوں کی جھگیاں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ گولائی میں تھی اور کپڑوں اور جھاڑیوں کی ٹہنیوں سے بنی اس کی دیواری اتنی اونچی تھی کہ آسانی سے اندر جھانکا نہ جا سکے۔ عجیب سی پراسراریت تھی جو چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اس جانب رخ نہ کیا جائے۔

اس جگہ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، نہ کبھی اس کے بارے میں سنا۔ لیکن کیونکہ یہاں سے گزرے طویل عرصہ ہوچکا تھا تو ممکن تھا کہ غیر مقامی لوگوں نے یہاں بھی بسیرا کرلیا ہو۔ جسم پر تھکاوٹ طاری تھی، لیکن تجسس اس پر حاوی ہوگیا۔ سوچا یہاں تک آہی گیا ہوں تو ذرا قریب سے دیکھنے میں کیا حرج ہے۔

اب قدم خودبخود اس جانب اٹھنے لگے تھے۔ جیسے جیسے وہ خیمہ نما جگہ قریب آتی جارہی تھی، دل مزید بے چین ہوتا جارہا تھا۔ اس جگہ سے چند قدم کے فاصلے پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ چاروں طرف سے بند ہے، اس میں داخل ہونے کا بس ایک راستہ ہے جو تقریباً تین فٹ چوڑا ہے۔

ابھی اس دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ دو بچے کھیلتے ہوئے باہر نکلے، حلیہ ان کا واقعی خانہ بدوشوں والا تھا، میلے کپڑے پاؤں چپلوں سے عاری، لیکن کسی بھی ٹینشن سے بے نیاز مسکراتے معصوم چہرے۔ ان میں سے ایک تو تیزی سے بھاگتا ہوا میرے برابر سے نکل گیا، لیکن دوسرا جو عمر میں بارہ، تیرہ سال کا تھا مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے ایک نظر اندر کی جانب ڈالی۔ پریشانی اس کے چہرے پر نمایاں ہوئی، لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔

میں نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور دروازے کی جانب بڑھا جس پر ایک میلا سا پردہ پڑا تھا۔ اس سے قبل کہ میں اندر قدم رکھتا اس نے میری پینٹ کا پائنچہ جیب کی جانب سے پکڑ کر کھینچا، میرے چہرے پر ناگواری کا ایک رنگ سا آکر گزر گیا۔ لیکن میں کچھ نہ بولا، اور استفساریہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

ہماری نظریں ملیں تو اس بچے کے دھیرے سے لب وا ہوئے اور دھیمی سی آواز میں بولا، 'اندر جانا۔۔۔ تو پیچھے مڑ کر مت دیکھنا' میں نے ازراہِ مذاق پوچھا، 'کیوں بھئی۔۔۔ کیا پتھر کا بن جاؤں گا؟'

میری بات سن کر وہ مسکرایا اور بولا، 'آؤ میں آپ کو اندر لے چلتا ہوں۔' اور میرا ہاتھ کوہنی کے پاس سے تھام کر گھسیٹنے کے انداز میں خیمے کی جانب بڑھا اور اس میلے سے پردے کو ہٹا کر مجھے لیے اندر داخل ہوا۔

اندر کا منظر دیکھ کر میں نے اپنے جسم کے رونگٹوں کو کھڑے ہوتے محسوس کیا، دل پر خوف طاری ہوچکا تھا۔ کیونکہ یہ کوئی خیمہ بستی نہیں بلکہ ایک قبرستان تھا، جس میں چالیس کے قریب چھوٹی بڑی قبریں چار سے پانچ فٹ کے فاصلے پر موجود تھیں۔

چہرے پر حیرانی اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ میں نے اس بچے کی جانب دیکھا جو میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں میں نمایاں پریشانی لیے میں نے اس بچے سے پوچھا، 'یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔؟'

'انڈے والا قبرستان۔۔۔۔۔۔' اس بچے نے عین میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

'لیکن یہ پہلے تو یہاں نہیں تھا۔۔۔' میں نے منہ ہی منہ بڑبڑاتے ہوئے اس بچے کی جانب دوبارہ دیکھا۔

لیکن وہ اب وہاں نہیں تھا، غالباً باہر جا چکا تھا۔ میں اب بھی اس داخلی دروازے نما راستے سے چند فٹ کے فاصلے پر ہی کھڑا تھا اور قبریں میرے پاؤں تک آرہی تھیں۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ قبرستان نما جگہ بیضوی شکل میں ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ اسے "انڈے والے قبرستان" کا نام دیا گیا تھا۔

لیکن یہ کوئی عام قبرستان نہیں تھا، جیسا شہروں میں دیکھنے کو عموماً ملتا ہے۔ یہاں کی قبریں اونچی اونچی نہیں تھی، صرف مٹی کے ٹیلے نما۔ نہ ہی ماربل کے سجیلے کتبے اور نہ ہی کوئی پھول پتیاں۔ باہر کی نسبت صاف ستھرا میدان، بے نام قبروں کے سرہانے کتبوں کی جگہ صرف ایک پتھر لگا تھا۔

ماحول کی پراسراریت سے دل گھبرانے لگا تھا، خوف دل میں اور آنکھوں میں گھر کرچکا تھا۔ ہتھیلیوں سے ٹھنڈے پسینے بہہ رہے تھے لیکن کانوں کی لو سے گرمی پھوٹ رہی تھی، کہ اچانک چھٹی حس نے خبردار کیا کہ کوئی بائیں کندھے کی جانب پیچھے کھڑا ہے۔

احساس ہوتے ہی خوف سے آلودہ جذبات کے ساتھ دھیرے سے پیچھے کی جانب کن انکھیوں سے دیکھنے کی کوشش کی، تو ایک ہیولہ سا محسوس ہوا۔ نہ جانے ڈر تھا یا جان بچانے کی قدرتی حس کہ اچانک مڑا اور اچھل کر تھوڑا پیچھے کی جانب ہوا۔ دیکھا تو وہاں واقعی ایک شخص ایک ہاتھ میں کپڑے کی پوٹلی اور دوسرے میں ایک پیتل کا لوٹے نما برتن تھامے کھڑا تھا۔

دکھنے میں یہ شخص کوئی خانہ بدوش نہیں بلکہ ایک تہذیب یافتہ معاشرے کا فرد معلوم ہوتا تھا، سلوٹوں سے عاری استری شدہ اس کا لباس، پاؤں میں پشاوری چپل ، آنکھوں پر سادہ سی عینک اور چہرے پر خشخشی داڑھی۔ لیکن زندگی سے خالی بے رونق بالکل سفید آنکھیں، جنکی رات کی تاریکی سے بھی سیاہ پتلیاں جامد تھیں۔

شاید اس نے میرے خوف کو بھانپ لیا تھا، اس لئے بولا، ' گھبراؤ نہیں، مہمان ہو۔' یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا۔

'پانی پیوگے۔۔۔؟' میں نے پہلی باری گلے کی خشکی کو محسوس کیا اور اثبات میں سر کو جنبش دی۔ جسے دیکھ کر اس نے اپنے ہاتھ میں تھاما پیتل کا وہ برتن میرے آگے کردیا۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر اس برتن کو اپنے ہونٹوں سے لگایا تو اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔ پانی کا ذائقہ مختلف تھا، جو کافی اچھا اور ٹھنڈا تھا۔ خیال آیا کہ شاید تھکاوٹ اور شدید پیاس کی وجہ سے ایسا لگ رہا ہو۔

ہم ابھی تک وہیں خیمے نما قبرستان کے شروع میں داخلی راستے کی طرف ہی کھڑے تھے۔ پانی پی کر دل کچھ پرسکون ہوا تو خیال آیا کہ آخر یہ شخص کون ہے؟ دل کے ساتھ ساتھ یہ سوال لبوں پر بھی آگیا۔

'اگر آپ بُرا نہ مانیں تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں آپ کون ہیں اور یہ جگہ کیا ہے؟'

میرے سوال پر وہ مسکرایا، یہ اس کی اب تک کی میرے سامنے پہلی مسکراہٹ تھی، 'یہ خانقاہ ہے اور میں اس کا مجاور۔'

'لیکن یہاں تو کوئی مزار نہیں۔۔۔؟' میں نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تو اس نے قبرستان کے اس حصے کی جانب اشارہ کیا جو اس حصے کی نسبت کافی گولائی میں کم تھا جہاں ہم کھڑے تھے، جیسا کہ انڈے کا اوپری حصہ ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس بچے نے اِسے انڈے والا قبرستان کہا تھا۔

وہاں ایک نمایاں خوبصورت سی قبر تھی جس پر ہرے رنگ کی چادر ڈلی ہوئی تھی، اس کے برابر میں ایک چبوترہ بنا تھا جس پر مصلہ بچھا تھا۔

'لیکن یہ ابھی تو یہاں نہیں تھی۔' میں نے انتہائی حیرت سے اس شخص کی جانب دیکھ کر کہا۔

'یہ یہیں تھی، شروع سے ہی یہیں ہے، میں بھی یہیں ہوں اور اب یہیں رہنا ہے' یہ کہتےہوئے اس کی مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔ 'لیکن آج سے پہلے کبھی کسی نے اس قبرستان کا ذکر کیوں نہیں کیا؟'

'کیونکہ یہاں کوئی آتا ہی نہیں، آج تم آئے ہو، خوشی ہوئی، آؤ۔۔۔' یہ کہہ کر وہ احتیاط سے قبروں پر بنا پاؤں رکھے اس ہری چادر والی قبر کی جانب بڑھنے لگا۔

دل نے کہا کہ جس راستے سے آئے ہو وہیں سے واپس لوٹ جاؤ، لیکن قدموں نے ساتھ نہ دیا اور اس شخص کے پیچھے چل پڑے۔ قبر کے پاس پہنچ کر اس نے اپنی پوٹلی اور برتن کو اس مصلے والے چبوترے پر رکھا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

میں چبوترے پر بیٹھا تو وہ بھی ہری چادر والی قبر کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گیا۔ اب وہاں ہم دو لوگوں کے علاوہ اگر کچھ تھا تو وہ تھی دل کو چیر دینے والی خاموشی۔

'یہ کس کی قبر ہے۔۔۔؟' میں نے اس ناقابل برداشت خاموشی کو توڑا۔

'ہمارے بزرگ کی، جنہوں نے ہمیں سیدھی راہ دکھائی۔' وہ قبر کو گھورتے ہوئے بولا۔

'ہم بھٹکے ہوئے تھے، خبیث تھے، دھتکارے ہوئے تھے۔۔۔' یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں اس قبر پر ہی جمی ہوئی تھیں۔

'تو کیا یہ کوئی اللہ کے ولی تھے۔۔۔؟ ان کا نام کیا ہے۔۔۔؟' میں نے پوچھا۔

'ہم نام نہیں لیتے۔۔۔ یہاں کوئی کسی کا نام نہیں لیتا۔۔۔ یہاں کسی کی کوئی اپنی پہچان نہیں۔۔۔' یہ کہتے ہوئے اس نے ایسی خوف سے آلودہ نظروں سے میرے چہرے کی جانب دیکھا کہ محسوس ہوا نظریں نہیں جسم کو بھیدنے کے لیے چلائے گئے نوکیلے تیر ہوں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔

'یہاں روشنی کا کوئی انتظام نہیں۔۔۔؟'

'کیا یہ روشنی کافی نہیں۔۔۔؟' اس نے دوسری قبروں کی طرف اشارہ کیا جہاں ہر قبر کے سرہانے پر ایک دیا جل رہا تھا۔

میں اس شخص کے پیچھے ان قبروں کو پار کرکے یہاں تک پہنچا تھا لیکن وہاں جلتے تو کیا، بجھے ہوئے دیے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

میرے دل میں اب خوف دوبارہ گھر کرچکا تھا۔ محسوس ہورہا تھا کہ باہر مکمل اندھیرا چھا چکا ہے۔ اندر بھی بس صرف دیوں کی مدھم روشنی تھی۔

ابھی میں انہی دیوں کی پراسراریت میں گم تھا کہ وہ شخص اٹھا اور ایک قبر سے دیا اٹھا کر میرے دائیں جانب یہ کہتے ہوئے رکھ دیا، 'ٹھنڈ بڑھنے والی ہے۔۔۔'

'بھوکے ہو۔۔۔ کچھ کھاؤ گے۔۔۔؟' اس نے جب یہ کہا تو مجھے احساس ہوا کہ واقعی مجھے بھوک لگی تھی۔ میں انکار کرنا چاہتا تھا، لیکن میرا سر اثبات میں ہل گیا۔

اس نے اپنی پوٹلی کھولی اور اس میں سے گوشت کا ایک بڑا سا ابلا ہوا ٹکڑا نکالا اور ایک روٹی پر رکھ کر میرے آگے کردیا۔

پھر اسی پوٹلی میں سے ہڈیوں کا ڈھیر نکالا، میں نے حیرت سے اس کو دیکھا تو بولا، 'یہ میرا کھانا ہے۔۔۔'

خیال آیا درویش نما شخص ہے شاید ان ہڈیوں کی یخنی بنائے گا۔

میں نے ڈرتے ڈرتے اس ابلے ہوئے گوشت کا ایک نوالہ روٹی سے توڑا، تو وہ بالکل گلا ہوا تھا، اس میں سے اٹھنے والی خوشبو نے دل کو للچا دیا۔ نوالہ منہ میں ڈالا تو وہ ابلا ہوا گوشت لگا ہی نہیں۔ اتنا لذیذ کہ شاید شہر کے بڑے سے بڑے ریستوراں میں وہ ذائقہ نہ ملے۔

چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ شخص مسکرا کر بولا، 'ایک ہی بار پیٹ بھر کر کھاؤ۔۔۔ دوبارہ نہیں ملے گا'

نہ جانے کیوں اس خوفناک اور پراسرار ماحول کے باوجود اب اس شخص کی موجودگی میرے لیے باعث اطمینان تھی۔

میں نے سیر ہوکر گوشت کھایا، جب کھانا ختم ہوا تو اس نے مجھے وہی پیتل کا برتن دوبارہ تھما دیا، میں نے پانی پیا۔ ٹھنڈ واقعی بڑھتی جارہی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈ کے مارے منہ سے دھواں نکل رہا تھا۔

'یہ ماحول تمہارے لیے مناسب نہیں۔۔۔ یہ جگہ تمہارے لیے مناسب نہیں۔۔۔' اس نے میری حالت دیکھی تو بولا۔

'لیکن آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔۔ یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔۔ آپ یہاں کیوں ہیں۔۔۔؟'

اس نے ایک لمحے کو میری پیشانی کی جانب دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔

میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ ہم دوبارہ احتیاط سے قبروں کے بیچ سے ہوتے ہوئے اس احاطے کے دائیں جانب ایک اندھیرے کونے میں پہنچے۔

وہاں پانچ چھوٹی چھوٹی دو دو، تین تین، فٹ کی قبریں موجود تھیں جیسے بچوں کی قبریں ہوں۔ ان پر کوئی دیا نہیں تھا، شاید اسی وجہ سے یہاں اندھیرا تھا۔

اس شخص نے ان قبروں کی جانب اشارہ کیا اور کہا، ' ہم سب ان کی وجہ سے یہاں ہیں۔۔۔'

'یہ کون ہیں۔۔۔ اور سب سے آپ کا کیا مطلب ہے۔۔۔؟' میں نے آنکھوں میں حیرت لیے پوچھا۔

اس نے آگے بڑھ کر ایک بچے کی قبر پر تھوکا اور دوسرے کی مٹی کو ٹھوکر ماری۔ مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور شخص سے نفرت سی محسوس ہوئی۔ لیکن اس کا اظہار نہیں کیا۔

'ان کی وجہ سے ہی ہم اذیت میں مبتلا ہیں۔۔۔' وہ نفرت سے بولا۔۔۔

لیکن کیسے۔۔۔؟ یہ تو معصوم بچوں کی قبریں معلوم ہوتی ہیں۔۔۔؟ میں نے کہا تو اس نے بتانا شروع کیا۔

' شروع سے ہی یہاں ہمارا بسیرا رہا ہے۔۔۔ ہم اپنے ان بزرگ کی عقیدت میں یہاں رہتے ہیں۔۔۔ یہ قبریں پہلے اتنی سادہ نہیں تھیں۔۔۔ یہ خوبصورت تھیں۔۔۔ لیکن پھر ایک دن یہ بچے یہاں آئے بالکل اسی طرح جیسے تم آئے۔۔۔'

یہ کہتے ہوئے وہ وہاں بیٹھ گیا ایسے جیسے انتہائی کرب اور افسوس میں مبتلا ہو۔

'یہ ان قبروں پر تھوکتے۔۔۔ انہیں ٹھوکریں مارتے۔۔۔ جیسے یہ کوئی ناپاک جگہ ہو۔۔۔ اور کہتے کہ یہ مسلمان کی قبر نہیں۔۔۔ مسلمان کی قبر ایسی نہیں۔۔۔' وہ بولتا جارہا تھا اور میں حیرانی سے سنتا جارہا تھا۔

'ہم میں سے کچھ ان کی باتوں میں آگئے اور ان قبروں کو ڈھا دیا۔۔۔ لیکن ان کا یہ عمل ہمیں پسند نہ آیا ہم نے انہیں بے دخل کردیا۔۔۔

کچھ نے انتہائی طیش میں آکر ایک دن ان بچوں کو بھی ختم کردیا۔۔۔ اور انہیں یہاں کونے میں دفنا دیا۔۔۔'

'اس دن سے ہم یہیں ہیں۔۔۔ ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں۔۔۔ ہم قید ہیں۔۔۔ ہمیشہ کے لیے۔۔۔ یہ بچے ہمیں جانے نہیں دیتے۔۔۔'

یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔ میں حیرت کا بت بنا یہ سب سن رہا تھا۔ ان ننھی قبروں کے سرہانے ساکن کھڑا تھا۔

'لیکن تم جاسکتے ہو۔۔۔ چلے جاؤ۔۔۔۔' یہ کہتے ہوئے اس نے میرا بازو تھاما اور اس داخلی پردے تک لے آیا اور بولا، 'پیچھے مت دیکھا ۔۔۔ بس چلے جاؤ'

یہ کہہ کر اس نے مجھے پردے سے باہر دھکیل دیا۔ میری ہمت نہیں تھی کہ دوبارہ مڑ کر دیکھتا، کہ وہی بچہ جو مجھے اندر لے گیا تھا نہ جانے کب میں اور کہاں سے میرا ہاتھ تھام کر بولا، 'گھر نہیں جانا۔۔۔؟ گھر نہیں جانا۔۔۔؟ گھر نہیں جانا۔۔۔؟ گھر نہیں جانا۔۔۔؟'

میرے دماغ نے کام کرنا بند کردیا اور میں غش کھا کر گر پڑا۔۔۔ لیکن وہی جملے میرے دماغ میں گھوم رہے تھے۔۔۔۔' گھر نہیں جانا۔۔۔۔؟ گھر نہیں جانا۔۔۔۔؟ اٹھو گھر نہیں جانا۔۔۔؟'

میں اچانک ہڑبڑا کر اٹھا، میں اب بھی ڈیسک پر ہی تھا، اور میرا ساتھی مجھے بیدار کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

تو کیا یہ سب خواب تھا۔۔۔؟ یا میرے اللہ۔۔۔ میں نے سوچا اور استغفار پڑھنے کے بعد آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے آفس سے نکل پڑا۔۔۔

لیکن یہ کیا۔۔۔ راستہ گٹھنوں تک پانی سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ اور اب مجھے وہی میدان والا راستہ لینا تھا۔۔۔

(یہ تحریر مصنف کے خواب پر مبنی ہے، اس تحریر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں)

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div