Aaj News

بدھ, اپريل 17, 2024  
08 Shawwal 1445  

مہنگائی نے عام آدمی کو دس برس پیچھے دھکیل دیا

2012 میں کم تنخواہ سے جتنی اشیا خوردونوش خریدی جا سکتی تھیں اب زیادہ تنخواہ سے بھی اتنا سودا سلف نہیں لیا جا سکتا
شائع 02 جنوری 2023 01:46pm
مہنگائی عام آدمی کو دس برس پیچھے لے گئی
مہنگائی عام آدمی کو دس برس پیچھے لے گئی

پاکستان میں 2022 میں ہونے والی مہنگائی کے بعد عام شہری کی اپنے اور اپنے اہلخانہ کے لیے خوراک خریدنے کی قوت 10 برس پیچھے چلی گئی ہے۔ بزنس ریکارڈر کے شعبہ ریسرچ کے مطابق 2013 سے 2022 کے درمیان عام شہری نے مہنگائی کے حوالے سے دو رحجانات دیکھے ہیں۔ دسمبر 2013 سے ستمبر 2018 تک اشیائے خوردونوش کے حوالے سے لوگوں کی قوت خرید بہتر ہوئی اور اس کے بعد برسوں میں یہ قوت خرید خراب سے بد اور بدترین ہوتی چلی گئی۔

یہ نتیجہ ادارہ شماریات پاکستان کے جمع کردہ دو ڈیٹا سیٹس کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے۔ ادارہ شماریات Sensitive Price Index (SPI) کے تحت مختلف اشیائے کی قیمتوں کا ریکارد رکھتا ہے جب کہ دوسرا ڈیٹا سیٹ جو اس تجزیے میں استعمال کیا گیا وہ مختلف قسم کے محنت کشوں (مستری، مزدر، بڑھئی، رنگ ساز) کی اوسط اجرت کا تھا۔

ادارہ شماریات کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوری 2012 میں اوسطاً ایک عام محنت کش 571 روپے یومیہ کما رہا تھا اور دسمبر2022 میں ایک محنت کش کی اوسط آمدن 1356 روپے یومیہ ہے۔ لیکن اس دوران اشیا خوردونوش کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہیں۔

اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ دسمبر 2013 میں جو شہری مہینے میں 3 لیٹر خوردنی تیل خریدنے کی استطاعت رکھتا تھا وہ دسمبر 2018 تک مہینے میں پانچ لیٹر خوردنی تیل خریدنے کے قابل ہوگیا۔ اسی طرح چاول، آٹا، گندم، چینی، فارمی انڈوں، چکن، دودھ دہی اور بڑے گوشت کے معاملے میں قوت خرید بہتر ہوئی۔ چھوٹا گوشت اور درآمد کی جانے والی بعض دالوں کے معاملے میں قوت خرید پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

دیہاڑی دار مزدور کے پاس دو ہی راستے ہیں، بچوں کی تعلیم سے کٹوتی کرے یا کچن کے اخراجات میں کمی لائے

بزنس ریکارڈر ریسرچ کا کہناہے کہ اشیائے خوردنی کے معاملے میں قوت خرید بہتر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ ان اشیا کا استعمال زیادہ شروع کردیتے ہیں تاہم اس سے یہ فرق ضرور پڑتا ہے کہ لوگوں کے پاس اپنی آمدن سے کچھ رقم بچتی ہے جسے وہ دیگر سہولتوں تعلیم، علاج وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں۔

تاہم 2018 کے بعد عام آدمی کی قوت خرید کم ہونا شروع ہوگئی۔ آج ایک عام محنت کش اپنی آمدن سے اتنا آٹا خریدنے کے قابل بھی نہیں رہا جتنا وہ 2012 میں خرید سکتا تھا۔ پچھلے برسوں میں محنت کش کی آمدن بظاہر تو بڑھ چکی ہے لیکن اس بڑھی ہوئی آمدن سے اتنی مقدار میں انڈے، دودھ، چکن، چاول اور دالیں نہیں خریدے جا سکتے جتنی مقدار 2012 میں اسی محنت کش کی کم تنخواہ خرید سکتی تھی۔ تقریبا تمام اشیائے خوردنی کے معاملے میں قوت خرید جس سطح پر 2012 میں تھی، اس سے نیچے پہنچ چکی ہے جبکہ درمیانی عرصے میں یہ سطح بلند ہوئی۔

 عام آدمی کی قوت خرید کی سطح بلند ہونے کے بعد 2012 کی سطھ سے بھی نیچے گر گئی۔ چارٹ مکمل سائز میں دیکھنے کیلئے کلک کریں۔
عام آدمی کی قوت خرید کی سطح بلند ہونے کے بعد 2012 کی سطھ سے بھی نیچے گر گئی۔ چارٹ مکمل سائز میں دیکھنے کیلئے کلک کریں۔

بزنس ریکارڈ ریسرچ کے مطابق صرف چینی کے معاملے میں عام آدمی کی قوت خرید بڑھی ہے حالانکہ بظاہر اس کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر وقت کے ساتھ آمدن میں بھی اضافہ ہوتا رہے تو قیمتیں بڑھنے سے قوت خرید کم نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں اس تناسب سے لوگوں کی آمدن نہیں بڑھی۔ صرف اشیا خوردونوش ہی نہیں بلکہ بجلی، گیس اور کرایوں میں بھی اضافے ہوا۔

اس وقت ایک دیہاڑی دار مزدور کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو بچوں کی تعلیم اور اپنے دفتر جانے کے اخراجات میں کسی طرح کمی لائے، نسبتاً سستے مکان میں رہائش اختیار کرے یا پھر کچن کے خرچ میں کمی لائے۔

food security

Inflation

purchasing power

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div